دل پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ہونا چاہیے خوشی کا ہو یا غمی کا دونوں کا اظہار کر دینا چاہیے۔انسان خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ میرے دل پر کئی دنوں سے دوستوں کی محبتوں کا بوجھ ہے جو اٹھائے پھر رہا ہوں۔حکومت پاکستان نے ادبی حوالے سے میری خدمات پر میرے لیے’’نشان امتیاز‘‘کا اعلان کیا ہے جو 23 مارچ کو ایوان صدر اسلام آباد میں دیا جائے گا۔مجھے تو اس بات کی خوشی ہے ہی لگتا ہے میرے دوست مجھ سے بھی زیادہ خوش ہیں ۔چنانچہ لاہور شہر کے سب سے بڑے میزبان عزیر احمد نے اس اعزاز کے صرف اعلان پر ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک پر تکلف عشائیے کا اہتمام کیا ۔جس میں شرکت کیلئے ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے اور بین الاقوامی شہرت کے حامل صحافی حامد میر اپنی بے شمار مصروفیات کو بھول بھال کر عزیر احمد کی دعوت پر لاہور آئے اور اس تقریب میں شرکت کی جس میں ان کے علاوہ پرویز رشید،مجیب الرحمن شامی،سہیل وڑائچ ،حفیظ اللہ نیازی،عثمان قاسمی، نوید چوہدری ،بیدار بخت، شاہد ظہیر سید ،ابرار ندیم ،نجم ولی ،کامران لاشاری،حماد غزنوی اور دیگر احباب نے شرکت کی۔اس موقع پر عزیر احمد کی طرف سے بار بی کیو کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔عزیر کی خوشی دیکھ کر مجھے دوستوں کو بتانا پڑا یہ اعزاز’’ہم کو نہیں بلکہ مجھے ملا ہے‘‘۔میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ اگر کوئی میری تعریف کرے تو مجھے برا لگتا ہے اور اگر نہ کرے تو زیادہ برا لگتا ہے۔یہاں میرے احباب نے میری اتنی تعریف کی کہ مجھے محسوس ہوا جھوٹ بول رہے ہیں ۔تاہم دل دکھانے والے سچ سے دل لبھانے والا جھوٹ بہتر ہے۔یہ دوست پروا نہ کریں میں پیرزادہ ہوں ان کے جھوٹ سچ کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا لوں گا۔تاہم جس دوست نے اس حوالے سے حد کر دی وہ حامد میر تھے جن کا کالم بہت پڑھا جاتا ہے۔مگر اس روز بہت زیادہ پڑھا گیا جنگ کے سرکولیشن منیجر کا کہنا ہے کہ اس روز صرف ایک ہی دن میںاس کالم کی وجہ سے جنگ دو بار شائع کرنا پڑا۔اس کے علاؤہ میں نے بہت سی افواہیں سنی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ اس تقریب کے تمام شرکاء اور میزبان عزیر احمد کےبہت سےگناہ معاف کر دئیے گئے۔یہ اطلاع مجھے ایک بہت بڑے بزرگ نے دی ہے جو محض میرے رزق میں برکت کیلئے میرے لنچ اور ڈنر کے اوقات میں مجھ سے ملنے کیلئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں خود نہیں آتا مجھے غائب سے آواز آتی ہے کہ فوراً عطاء الحق قاسمی کی طرف پہنچوکہ انہیں غیب سے حکم ملا ہے کہ اسےفوراً بلاؤ بہرحال اس روز بہت سے لوگوں کو اس طرح کی آواز سنائی دی تھی مگر ان کے بقول ایک آواز یہ بھی سنائی دی کہ اگر گئے تو ’’تہاڈیاں لتاں بھن دتیاں جان گیاں‘‘ چنانچہ وہ خواہش کے باوجود رک گئے۔وہ اس حوالے سے مجھ پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ یہ آواز تمہاری تھی میں اس سلسلے میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ اس پراسرار کائنات میں ایسی اور بھی بہت سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔جن پر سائنس دان حیران ہیں کہ یہ آوازیں کہاں سے آتی ہیںاور کیوں آتی ہیں ،میں بہرحال اپنے ہاتھ کھڑے کرتا ہوں میں کون ہوتا ہوں کسی مہمان کو آنے سے روکوں۔ سنا ہے کہ سب کی رازق اللہ کی ذات ہے بہرحال یہ بھی سنا ہے کہ وہ کسی بد ذات کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔میں تقریب کی خوشی سے مالا مال گھر پہنچا تو میری اہلیہ روبی شہناز نے روٹین کا سوال پوچھا ’’کہاں سے آ رہے ہو‘‘میں نے کہا اے خوش جمال’’ آج حکومت کے ایک اعلان کے بعد شہر کے کچھ باذوق لوگوں نے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا وہاں سے آ رہا ہوں ‘‘،’’شہر کے سارے لوگ بے وقوف نہیں ہیں کہ تمہاری طرح ایسے ہی دولت لٹاتے رہیں سچ بتاؤ کہاں سے آ رہے ہو‘‘ میں نے پھر وہی جواب دیا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’مجھے پتہ ہے میں تو اپنی خوشی دوبالا کرنے کیلئے یہ سوال دانستہ پوچھ رہی تھی۔تم بھی اس خوشی میں اپنے دوستوں کو گھر پرکل مدعو کرو پیسے مجھ سے لے لینا ‘‘ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا جو میں سن رہا ہوں وہ سچ ہے یا میرے کان بج رہے ہیں بہرحال حقیقت حال کا پتہ تو کل ہی چلے گا مگر پیشتر اس کے کہ میں اپنی اہلیہ کی بات پہ یقین کرتا اس نے کہا ’’ حکومت کو 24کروڑ کی آبادی میں اس اعزاز کیلئے آپ کے علاؤہ کوئی اور نہیں ملا تھا۔؟‘‘