گزشتہ ہفتہ بہت مصروف گزرا اور اس سے گزشتہ ہفتہ بھی۔ ایک وقت تھا کہ یہ مصروفیات بری نہیں لگتی تھیں بلکہ کم ہونے پر احساس ہوتا تھا کہ کہیں یار لوگ مجھے بھول تو نہیں گئے، مگر اس ہفتے کی مصروفیات نے تو مت مار دی، بہت اہم تقریبات میں بھی شامل نہ ہو سکا، مصروفیات تو ایک طرف، اب ایک وہیل چیئر والے کی بھی تو ضرورت پڑتی ہے اور بعض اوقات اس وہیل چیئر والے کو بھی ایک مددگار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جب کوئی اسٹیپ آ جائے اور چیئر کو اُٹھا کر اس پل صراط کو چھوڑنا پڑے، چنانچہ اس کے باوجود بہت سی تقریبات میں شرکت کر لی۔ شرکت کرنے سے مراد محض چہرہ نمائی ہے۔ تقریب گاہ میں داخل ہوتے ہی ایک زوردار کھنگورا مارا، جس پر ہال میں بیٹھے مرد و زن اسی طرف دیکھنے کو مجبور ہو جاتے ہیں جدھر سے دھماکہ نما کھنگورا سنائی دیا ہوتا ہے اور یوں اس تقریب میں میری حاضری لگ جاتی ہے۔ اظہارِ خیال کے لیے مائیک اسٹیج کے نیچے منگوا لیتا ہوں اور وہیں سے ’’عوام‘‘ سے خطاب فرماتا ہوں، رخشندہ نوید میری پسندیدہ شاعرہ ہیں، اب ان کی کلیات کی تقریب رونمائی میں میرا جانا ضروری تھا، اگر یہ امر ’’فرضِ کفایہ‘‘ میں آ رہا ہوتا تو میں اپنی جگہ کسی اور کو بھیج دیتا، مگر رخشندہ اور اس کی شاعری سے ایک قلبی تعلق کی وجہ سے میرا چاہے چند لمحوں کیلئے وہاں جانا ضروری تھا، چنانچہ الحمرا کے در و دیوار سے میری دیرینہ آشنائی ہے۔ مگر اس کے باوجود میں نے گریڈ 18 کے افسر اور اپنے برخوردارِ اعظم کو فون کیا کہ وہ کسی آسان راستے سے الحمرا نمبر 2 میں لے جائے اور چند منٹ کے بعد وہاں سے بھی لے جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، لوگوں نے مجھے بتایا کہ میں نے وہاں خطاب بھی فرمایا اور اختصار کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا بس۔ ایک جگہ نہ جا سکنے کا دلی افسوس ہے اور وہ عائشہ عظیم کی دعوت اور برادرم قاسم علی شاہ کے محبت بھرے اصرار پر طلبہ کے اس اجتماع سے خطاب کیلئے نہ جا سکا۔ عائشہ عظیم اسکالر ہیں، مزاح نگار ہیں، بہت سی کتابوں کی مرتب ہیں۔ مجلہ معاصر کی مجلس ادارت میں شامل ہیں اور جہاں تک سید قاسم علی شاہ کی ذات کا تعلق ہے، ان کی خدمات گنوانے کیلئے ایک نہیں کئی مضامین کی ضرورت ہے۔ چلیں یار زندہ صحبت باقی!!میرے خیال میں اتنے سارے دوستوں کی محبت سے محروم رہنے کی وجہ وہ بے شمار مصروفیات تھیں جو مجھے نشانِ امتیاز ملنے کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریبات میں میری شرکت تھی، جس میں حامد میر بطور خاص کراچی سے لاہور آئے۔ میرے خیال میں اتنی کوتاہیوں کی ایک معمولی سی تلافی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اب میں ان تمام دوستوں کو ایک جگہ جمع کر کے کھابہ گیری کی کوئی تقریب منعقد کروں جس کی صدارت برادرم سہیل وڑائچ کریں اور مہمانِ خصوصی میرے ’’بزرگ‘‘ مجیب الرحمان شامی ہوں۔ تاہم مقامِ تقریب خفیہ رکھا جائے موضوع سے ہٹ کر دوستوں سے ایک ذاتی بات شیئر کرتا جائوں کہ میں ان دنوں بہت جلد تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہوں، دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے چودہ گھنٹے ہی مصروفیت میں گزریں تو خود کو فرہاد سمجھنے لگتا ہوں جو شیریں کے حکم پر پہاڑ کھودنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ فرہاد تو تھکتا نہیں تھا، میں تھک جاتا ہوں، حالانکہ ابھی میری عمر ہی کیا، یہی 82برس۔ یہ تو کھیلنے کودنے کی عمر ہے۔ مجھے خدشہ ہے میرا دوست بونگا ماڈل ٹائونوی کہیں یہ بونگی نہ مار دے کہ اس کے علاوہ تم کرتے کیا ہو!میں نے مطالعے اور دو مختلف راویوں سے سنا ہے، ایک کہتا ہے کہ دوستوں سے کوئی بات نہیں چھپانا چاہیے، دوسرے کا کہنا ہے کہ دوستوں سے ہر بات چھپانا چاہیے۔ میں ان دونوں راویوں کے ان قولوں پر عمل کرتا ہوں، کچھ دوستوں سے کوئی بات نہیں چھپاتا اور کچھ کو ہر بات بتا دیتا ہوں، جن سے بات چھپانی ہوتی ہے وہ کبھی کسی سے بات نہیں کرتے اور جن کو بتانی ہوتی ہے، اس میں کچھ ایسا ’’فاسد مواد‘‘ شامل ہوتا ہے کہ کسی کو بتانے کی صورت میں وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔اس نوع کے کچھ اقوالِ زریں ایک فارسی کے شاعر ’’بابا قول و قرار‘‘ نے بتائے ہیں، ان کے اس نام سے کوئی بھی واقف نہیں۔ مگر اللہ جانے اس نام سے انہیں کیوں پکارا جاتا ہے۔ شاید اسلئے کہ اوائلِ جوانی سے اختتامِ جوانی تک انہوں نے قول و قرار کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور کبھی کوشش تک نہیں کی کہ یہ قول و قرار پورے بھی کیے جائیں۔ اسکے منطقی نتیجے میں مختلف تھانوں میں ان کے مقدمات درکار ہیں اور انکے کچھ رقیب متعدد دفعہ ان کی پٹائی کر چکے ہیں مگر یہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔ ان کے رقیبوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جو یہ چاہتے ہیں، ان کو کرنے دیں اسکے بعد ان کیساتھ شاید اس سے بھی زیادہ بُرا ہو جتنا بُرا انکے یہ ’’حاسدین‘‘ چاہتے ہیں۔