• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرمیوں میں میٹھے مشروبات اور آئس کریم بیماریوں کے خطرات کو بڑھاتے ہیں: تحقیق

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو 

نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گرمیوں کے مہینوں میں میٹھے مشروبات اور آئس کریم کا زیادہ استعمال موٹاپے، ذیابیطس اور دل کی بیماری کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے لوگ کولڈ ڈرنکس اور آئس کریم کا استعمال زیادہ کرنے لگے ہیں۔

 اگرچہ کولڈرنکس اور آئس کریم وقتی طور پر سکون فراہم کرتی ہیں لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ان کے صحت پر دیرپا اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی مشترکہ تحقیق میں 2004ء اور 2019ء کے درمیان امریکیوں کی کولڈرنکس اور آئس کریم کی خریداری کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ جب باہر کا درجہ حرارت 12 ڈگری سینٹی گریڈ اور 30 ​​ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے تو اس دوران میٹھے کا استعمال اوسطاً 0.70 گرام فی شخص فی دن بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق کے نتائج کے مطابق چینی کے زیادہ استعمال سے کم آمدنی والے اور کم تعلیم یافتہ گھرانے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس کی وجہ میٹھے مشروبات اور آئس کریم کی قیمتوں کا کم ہونا اور زیادہ میٹھے کے استعمال سے صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں محدود آگاہی ہے۔

تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی لوگوں کو سستے اور میٹھے مشروبات کے استعمال پر مجبور کرتی ہے جس سے وقتی طور پر ٹھنڈک اور تازگی کا احساس ہوتا ہے لیکن یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق میٹھے کے استعمال کی محفوظ یومیہ حد مردوں کے لیے 36 گرام اور خواتین کے لیے 24 گرام ہے، اس محدود مقدار سے زیادہ میٹھے کا استعمال دائمی بیماریوں کے خطرات کو بڑھاتا ہے۔

ماہرین صحت کا اندازہ ہے کہ اگر میٹھے کا استعمال اسی طرح بڑھتا رہا تو اس صدی کے آخر تک کم آمدنی والے طبقے روزانہ 5 گرام زیادہ میٹھے کا استعمال کر رہے ہوں گے جس کے نتیجے میں موٹاپے، امراض قلب اور ذیابیطس ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔

ماہرینِ صحت نے صحت عامہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اور گرم موسم میں میٹھی اشیا پر انحصار کم کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔


نوٹ: یہ ایک معلوماتی مضمون ہے، اپنی کسی بھی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کےلیے اپنے معالج سے رابطہ کریں۔

صحت سے مزید