• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک گائوں میں کسان جب صبح کے وقت اپنے کھیتوں میں فصل کی کٹائی کیلئے پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ جنوں نے ان کی فصلیں پہلے ہی کاٹ کر رکھی ہوئی تھیں اور بڑی نفاست سے ان کے ڈھیر لگائے ہوئے تھے، یہ جن اس کام کے اتنے ماہر تھے کہ انہوں نے فصلوں کی کٹائی فصلیں پکنے ہی پر کی تھی ، نیز ان کی علیحدہ علیحدہ ڈھیریاں پوری مہارت سے بنا کر رکھی تھیں۔

ہمیں یہ خبر پڑھ کر حیرت نہ ہوئی کیونکہ جنوں پر ہمارا ایمان پختہ ہے، البتہ حیرانی اس بات پر ہوئی کہ جنوں نے اب انسانوں کے کام بھی آنا شروع کر دیا ہے، ورنہ ہم نے جنوں کے بارے میں جتنی شکایتیں سنی ہیں ، ان کے مطابق تو یہ جن بہت عجیب و غریب قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، مثلاً کبھی کسی لڑکی پر عاشق ہو جاتے ہیں اور اس میں حلول کر جاتے ہیں جس پر عامل کو بلایا جاتا ہے، جو مار مار کر لڑکی کا بھرکس نکال دیتا ہے۔

اور کہتا جاتا ہے کہ نہیں یہ ” پھینٹی‘‘ دراصل جن کو لگائی جارہی ہے، اسی طرح کبھی کسی مکان پر پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور کبھی یہ سننے میں آتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے گھر کے برتن ہوا میں اچھلنا شروع ہو جاتے ہیں، یہ جن کبھی کسی اہل خانہ کی چار پائی الٹانا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی جنگل میں انسانوں کا روپ دھار کر کسی راہ گیر کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا قد بڑھتے بڑھتے آسمان سے جا لگتا ہے، جس پر بے چارے راہ گیر کو مجبورا بے ہوش ہونا پڑتا ہے، چنانچہ اگر دیکھا جائے تو جنوں کی کثیر تعداد ہڈ حرام قسم کی ہوتی ہے۔

یہ کام وام کچھ نہیں کرتے ، بس شعبدہ بازیاں دکھا دکھا کر عوام کو مرعوب کرتے رہتے ہیں۔جنوں کی ایک قسم تو ایسی بھی ہے جو اپنے تمام جاہ و جلال اور سب کچھ کر گزرنے کا اختیار رکھنے کے باوجود خود کو بالکل بے بس ظاہر کرتی ہے، یہ وہ جن ہیں جو اگر انسان ہوتے تو اپنی اس خصوصیت کی بنا پر اقتدار میں ہوتے ، سیاست دان ہوتے ، بیوروکریٹ ہوتے ، مگر شومئی قسمت سے یہ جن رہ گئے، ترقی کی منزلیں طے نہ کر سکے، دریا میں نہاتے ہوئے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک تربوز آیا ، اس نے یہ تربوز پکڑا اور باہر کنارے پر آ گیا، جو نہی اس نے تربوز کھولا تو اس میں سے ایک لحیم شحیم جن قہقہے لگاتا ہوا بر آمد ہوا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’

’کیا حکم ہے میرے آقا ؟‘‘ اس شخص نے کہا۔’’برادر بات یہ ہے کہ میں غریب آدمی ہوں ، کرائے کے مکان میں رہتا ہوں ، تم اگر میرے لئے کچھ کرنا چاہتے ہو، تو مجھے کوئی پلاٹ دلوا دو ۔ ‘‘یہ سن کر اس جن نے قہقہہ لگایا اور کہا۔’’تم اپنے اس مطالبے سے مجھے خاصے بے وقوف آدمی لگتے ہو۔ میںاگر تمہیں پلاٹ دلوا سکتا تو میں نے خود تربوز ہی میں رہنا تھا ؟‘‘

اب دیکھا جائے تو یہ جن وہ ہیں، جو جنوں کے نام پر بدنما داغ ہیں ، یا تو یہ خود کو جن نہ کہلائیں ، یا دعوے نہ کریں کہ وہ صاحب اختیار ہیں اور اگر وہ سیاہ وسفید کے مالک ہیں تو پھر بے گھر لوگوں کو گھر دیں، بھوکوں کو روٹی دیں، اور حاجت مندوں کی ضروریات پوری کریں۔

بصورت دیگر یا تو انہیں نا اہل سمجھا جائے گا یا انہیں ہڈ حرام کہا جائے گا اور یا پھر یہ سمجھا جائے گا کہ یہ حال مست ہیں، انہیں دوسروں کی فاقہ مستی سے کوئی غرض نہیں !بہت عرصہ ہوا ہم نے منور ظریف کی ایک فلم دیکھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ الہ دین کا چراغ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے، وہ چراغ رگڑتا ہے تو دھوئیں میں سے ایک جن قہقہے لگاتا ہوا بر آمد ہوتا ہے ، منور ظریف اسے کہتا ہے۔ میں بہت اداس ہوں ، خود کو تنہا محسوس کر رہا ہوں، میرے لیے لڑکی کا بندو بست کرو۔ یہ سن کر جن ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ۔

” میرے آقا ! میں جن ہوں ، دلا نہیں ہوں ! ‘‘جنوں کی یہ قسم وہ ہے جنہیں غیور جن کہا جا سکتا ہے لیکن ایسے جن اب خال خال ہی پائے جاتے ہیں، ورنہ ہم نے تو صاحب اقتدار لوگوں میں، سیاست دانوں میں ، صحافیوں میں اور دانشوروں میں ایسے ایسے’’ جن‘‘ دیکھے ہیں، جن کی ساری عمر’’ جن‘‘کی ایک بوتل پر سفارت خانوں کی دلالی میں گزر جاتی ہے۔ یہ جن قیمتی لباسوں میں پورے کروفر کے ساتھ ہمارے اور آپ کے درمیان رہتے ہیں اور ان کا شمار بہت معزز جنوں میں ہوتا ہے، حالانکہ انہیں مونچھیں بڑھا کر ، کاندھوں پر رومال رکھ کر اور مٹھی میں سگریٹ دبا کر لاہور ہوٹل کے باہر کھڑا ہونا چاہئے!

تازہ ترین