• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس رات ’’آزادی گلی‘‘ کی تقریریں سن کر گھر کی طرف چلے تو راستے میں ایک دوست مل گئے۔ پوچھنے لگے ’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ بتایا ’’آزادی گلی سے‘‘ کہنے لگے ’’وہ کہاں ہے؟‘ میں نے کہا وہاں جہاں آزادی کی باتیں ہوتی ہیں۔ دیر تک ان دوست سے آزادی، آزادی کے فلسفے اور فکر پر بات ہوتی رہی پھر میں نے اپنے دوست کو بہت سے لوگوں کے جذبات کے بارے میں بتایا کہ لوگ کہتے ہیں ’’جیو نہیں ہے تو آج کل شامیں سونی سونی، اداس اور خالی خالی سی رہتی ہیں۔ اب ٹی وی دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔ ٹی وی آن کرو تو ریموٹ پر انگلیاں رقص کرتی رہتی ہیں، چینل بدلتے رہتے ہیں اور کچھ بھی ایسا نہیں ملتا کہ دل دیکھنے کو چاہے اور کان سننے کو چاہیں‘‘۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے ’’جیو تو زندگی کی دعا ہے، زندگی ہے تو سب کچھ ہے اور جیو جیسی دعا کا الٹ ہے مرو۔ اس حالت میں کچھ بھی نہیں رہتا۔ جیو کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ سب کو ہر لمحے ہر پل زندگی کی دعا دیتا ہے۔ پاکستان میں ٹیلیویژن اور جیو ایک ہی معنوں میں لئے جانے لگے۔ اگر کوئی کہے میں نے فلاں خبر ٹیلیویژن پر سنی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نے یہ خبر ’’جیو‘‘ پر سنی۔اس ٹیلیویژن چینل کا نام ’’جیو‘‘ رکھنا ایک بہت مثبت سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ نام رکھ کر جیو پاکستان سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے کہ ہم پاکستان کا خیال آتے ہی دعا کرتے ہیں۔
’’تم جیو ہزاروں سال!‘‘
پاکستان سے ہماری محبت، پاکستان کیلئے ہمارے جذبے اور پاکستان سے ہماری وابستگی ہمارے دلوں کی تمنا بن کر ہمارے لبوں پر جس دعا کی صورت میں آتی ہے وہ ہے ’’جیو!‘‘آج ملک ملک میں ہر محفل میں جیو کی بندش کے حوالے سے باتیں عام ہیں۔ عام محفلوں میں، ملاقاتوں میں لوگ اسے موضوع گفتگو بناتے ہیں،ایک صاحب کہنے لگے۔’’اگر جیو زندگی کی دعا ہے، تو پھر یہ دعا مانگنے والوں سے غلطیاں کیوں ہوئیں؟‘‘عرض کیا ’’غلطی انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ انسان کو خطا کا پتلا کہا جاتا ہے۔ جو لوگ جیو سے عشق کی حد تک لگائو رکھتے ہیں اور اس بندش پر آزردہ ہیں ان کو سمجھاتا ہوں کہ جیو کی اس بندش نے اس کو نقصان سے زیادہ فائدہ پہنچایا۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ عام ناظرین کو یہ احساس ہوا کہ اب ٹیلیویژن دیکھنے سے کوئی بات ہی نہیں بنتی۔ سارے رنگ پھیکے پھیکے نظر آتے ہیں۔ اب جیو کی اہمیت ان کی نظروں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ جیو کے ساتھ اب یہ کیفیت ہے کہ ’’تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی‘‘ جیو کی بندش نے ملک کے اہل دانش کو آزادی اظہار کی اہمیت کا احساس دیا ہے۔ اب ہر طبقے کے لوگ جیو کے ساتھ یکجہتی اور اس کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔جیو کی بندش نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ’’آزادی گلی‘‘ کی تخلیق کی ہے۔ یہ آزادی گلی پاکستان کی تاریخ میں آئندہ سنہرے باب رقم کرے گی۔ آج یہاں جیو کی آزادی کی بات ہورہی ہے کل یہاں آئین انسانیت کے تحت دی گئی ہر آزادی پر بات ہوگی۔ اسلام نے انسان کو غلامی سے آزادی دلائی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے غلام بنانے والوں سے کہا تھا ’’مائوں نے انسان کو آزاد جنا، تم کون ہوتے ہو ان کو بند کرکے اپنے غلام بنانے والے؟‘‘آزادی گلی میں انسانیت کے سب سے بڑے آئین کے تحت محترم آزادی کی بات ہو گی۔ مادر پدر آزادی اور ننگِ آزادی لوگوں کو یہاں پذیرائی نہ ہوگی۔ یہ آزادی گلی پوری دنیا کیلئے ایک مثال بن جائے گی اور یہاں سے مختلف قدغنوں کے خلاف آزادی کے سوتے پھوٹیں گے۔احساس کے ساتھ شروع کرے گا کہ جیو ایک ٹرینڈ سیٹ کرنے والا ادارہ ہے۔ جیو زندگی کا جو انداز بناتا ہے سب اس کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ اب جیو کی نشریات میں پاکستان کی تعمیر کا پیغام ہو گا۔ اخلاقی لحاظ سے جیو پاکستان کی تہذیب ثقافت اور روایات کو پیش کرے گا۔ جیو پاکستان میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرے گا۔ جیو پاکستان میں عدل کی عظمت اور ضرورت کا احساس پیدا کرے گا۔ جیو پاکستان کے قومی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی عزت پیدا کرنے کیلئے ملک میں ایک ماحول پیدا کرے گا۔ ’’جیو‘‘ ہر طریقے سے اپنے نام کا مطلب واضح کرے گا۔ جیو کی زندگی کی دعا… اور ہم کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں،عدل کے ساتھ… ہم زندگی کو محفوظ کرسکتے ہیں دفاع کے ساتھ… ہم زندگی کو خوشحال بناسکتے ہیں معیشت کے ساتھ… ہم عزت والی زندگی پاسکتے ہیں جمہوریت کے ساتھ… اور ہم مہذب کہلا سکتے ہیں آزادی کے ساتھ… آزادیٔ افکار کے ساتھ… آزادیٔ اظہار کے ساتھ۔
تازہ ترین