زندگی کے مختلف ادوار میں عورت کی حیثیت ہمیشہ موضوعِ بحث رہی ہے۔ مختلف تہذیبیں اور مذاہب عورت کے بارے میں جداگانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ کہیں عورت کو دیوی سمجھ کر پُوجا گیا، تو کہیں اسے جنسِ بازار بنا دیا گیا۔ کہیں وہ وراثت میں حصّے دار بنی، تو کہیں خود اسے وراثت کا حصّہ سمجھ لیا گیا۔
کہیں وہ تقدّس کی علامت ٹھہری، تو کہیں اس کے وجود کو باعثِ ناپاکی قرار دیا گیا۔ اسی طرح عورت کے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی بھی ایک طویل تاریخ ہے اور ان کوششوں کا ایک نمایاں باب ’’ویمنز ایکوالیٹی ڈے‘‘ یا ’’خواتین کی برابری کا دن‘‘ ہے، جو ہر سال 26اگست کو منایا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دُنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ خواتین کو بھی مَردوں کی مانند تمام معاشرتی، سیاسی، تعلیمی اور معاشی حقوق حاصل ہیں اور اس کا احترام کسی رعایت یا احسان کے طور پر نہیں، بلکہ اس کے بنیادی انسانی حق کے طور پر کیا جانا چاہیے۔ اس دن کی ابتدا امریکا سے ہوئی، جہاں احتجاجی مظاہروں کے طویل سلسلے اور قانونی جدوجہد کے بعد 1920ء میں 19ویں ترمیم کے ذریعے خواتین کو ووٹ دینے کا حق ملا۔
بعد ازاں، 1971ء میں امریکی کانگریس نے 26اگست کو باقاعدہ طور پر ’’ویمنز ایکوالیٹی ڈے‘‘ قرار دیا تاکہ نہ صرف اس کام یابی کو یادگار بنایا جائے بلکہ دُنیا کو یہ پیغام بھی دیا جائے کہ مساوات کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا اور یہ دن عالمی سطح پر عورت کی برابری کے تصوّر کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔
لیکن جب ہم دُنیا بَھر میں خواتین کے حقوق کے لیے چلنے والی مختلف تحاریک اور قوانین کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ حقیقت نہایت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ ان کے نتیجے میں خواتین کو وہ مقام اور حقوق کبھی نہیں دیے گئے کہ جو اسلام نے آج سے تقریباً 1500سال قبل عورت کو عطا کیے تھے۔
آمدِ اسلام سے قبل بیٹی کی پیدائش پر گھر میں صفِ ماتم بچھ جاتی تھی، عورت کو وراثت میں حصّہ نہیں دیا جاتا تھا، بلکہ خود اسے ہی جائیداد اور مویشیوں کی مانند تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ نیز، اس کی اپنی زندگی سے متعلق فیصلوں میں بھی اس کا کوئی عمل دخل نہ ہوتا تھا۔
اس تاریک دَور میں اسلام نے آکر اعلان کیا کہ ’’بیٹی رحمت ہے۔ اس کی پرورش جنّت کا ذریعہ ہے، ماں کے قدموں تلے جنّت ہے اور عورت بھی مرد کی طرح ایک آزاد اور باعزّت انسان ہے۔‘‘ قرآن نے واضح الفاظ میں کہا :وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (البقرۃ 228:) یعنی ’’عورتوں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مَردوں کے، دستور کے مطابق۔‘‘ یہ اعلان اُس زمانے کے ہر معاشرتی اور ثقافتی تصوّر کے برعکس تھا اور آج بھی اپنی جامعیت اور عدل کے اعتبار سے بے مثال ہے۔
اسلام نے عورت کو وراثت، مہر، نکاح میں رضامندی، تعلیم اور معاشی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کے حق سمیت طلاق اور خُلع کے قانونی راستے فراہم کیے اور پھر سب سے بڑھ کر اس کی عزّت و عِصمت کی ایسی حفاظت کی کہ اسے معاشرتی استحصال سے محفوظ کر دیا۔ یاد رہے کہ ان حقوق کے حصول کی خاطر مغرب کی خواتین نے صدیوں بعد تحاریک چلائیں، قُربانیاں دیں اور ابھی بھی اپنی حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، جب کہ مسلمان خواتین کو یہ تمام حقوق نبی کریم ﷺ کے دَور ہی میں حاصل ہو گئے تھے، لیکن ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ اسلامی معاشروں میں ان اسلامی احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا، جس سے اسلام کا ایک عالم گیر دِین کے طور پر تشخّص متاثر ہو رہا ہے۔
اس ضمن میں پاکستانی معاشرے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جہاں بیش تر خاندانوں میں رسوم و رواج اور دقیانوسی خیالات کی بنا پر بچّیوں کو تعلیم اور وراثت میں حصّے سے محروم رکھا جاتا ہے اور شادی کے موقعے پر ان کی رضامندی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
یہ رویّہ اور طرزِ عمل دینِ اسلام کی دَین نہیں، بلکہ ہماری ذہنی پس ماندگی، قبائلی سوچ اور سماجی ناہم واریوں کا نتیجہ ہے، لیکن مغربی میڈیا اور اسلام مخالف حلقے ان منفی رویّوں کو دینِ اسلام کے کھاتے میں ڈال کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا ہمارا مذہب عورت کی ترقّی میں رُکاوٹ ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ حقوق کی فراہمی کے ضمن میں اسلام مساوات کی بجائے عدل کا مظاہرہ کرتا ہے اور عدل کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد کو اُس کے کردار، حیثیت اور ضرورت کے مطابق حقوق ملیں۔ اسلام مَرد اور عورت کو ایک دوسرے کا مقابل نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والا بناتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ:ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ'' (البقرۃ 187:) ترجمہ ’’ تم ایک دوسرے کے لیے لباس ہو۔‘‘ لباس کی اس تشبیہ میں محبّت، حفاظت، زینت اور ضرورت سب کچھ شامل ہے۔
اگر ہمارے معاشرے میں عورت کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، تو یہ اسلامی تعلیمات سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا کہ ’’عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔‘‘ آپ ﷺ نے عورت کو امانت قرار دیا اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کو ایمان کی علامت قرار دیا، مگر ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدّد، غیرت کے نام پر قتل، کم عُمری میں شادی اور زبردستی نکاح جیسے واقعات عام ہیں، جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اور ان کا خاتمہ ہی اسلام کے عملی نفاذ کا ثبوت ہے۔
دوسری جانب مغرب کا مساوات کا ماڈل بعض پہلوؤں سے عورت کو تحفّظ دینے کی بجائے انہیں ایک نئے قسم کے استحصال کی جانب دھکیل رہا ہے۔ میڈیا اور مارکیٹنگ انڈسٹری میں عورت کی بہ طور جنس نمائش کرنا، ’’آزادی‘‘ کے نام پر خاندانی نظام کو شکست و ریخت کا شکار کرنا اور مادیّت پرستی کے زیرِ اثر خواتین پر دُہری ذمّے داریوں کا بوجھ ڈالنا وغیرہ ’’مساوات‘‘ کے تصوّر کی وہ شکلیں ہیں کہ جو بہ ظاہر خُوب صُورت ہیں، مگر حقیقت میں عورت کا آرام و سکون تک چھین لیتی ہیں۔
واضح رہے، اسلام عورت کو اس کے فطری وقار اور کردار کے ساتھ جینے کا موقع دیتا ہے اور اس کی ذمّے داریوں کو اس کے مزاج اور قدرتی ساخت کے مطابق متعیّن کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مغربی بیانیے کی اندھی تقلید کی بجائے اپنے دِین کی تعلیمات پیشِ نظر رکھیں۔
نیز، ہمیں دُنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ عورت کے حقوق کی اصل ضمانت اسلام دیتا ہے اور ہماری ذمّے داری ہے کہ ہم اپنے گھروں، سماج اور مُلک میں ان اصولوں کو نافذ کریں۔ جب ہم خود اپنی بیٹیوں کو تعلیم، بہنوں کو وراثت میں حصّہ اور بیویوں کو عزّت دیں گے، اپنی ماؤں کی خدمت کریں گے اور خواتین کو ان کا جائز مقام دیں گے، تو تب ہی دُنیا پر یہ آشکار ہوگا کہ دینِ اسلام عورت کے لیے رحمت ہی رحمت ہے۔