انصار عباسی اسلام آباد :…نئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے عہدہ سنبھالتے ہی 375؍ ٹریلین روپے (تین لاکھ 75؍ ہزار ارب) کی آڈٹ بے ضابطگیوں کے اسکینڈل پر ہنگامی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور اس معاملے کی حقیقت جاننے کیلئے اعلیٰ سطح کی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا حکم دیا ہے۔ بدھ کو جاری کردہ باضابطہ حکم نامے کے مطابق، ایک دو رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ یہ سنگین اور ناقابلِ یقین غلطی کیسے عوامی ڈومین تک پہنچی، جس سے ادارے کی اہلیت اور ساکھ پر سنگین سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ کمیٹی کی سربراہی ایڈیشنل سیکریٹری (پاور ڈویژن) محفوظ احمد بھٹی کر رہے ہیں جبکہ ڈائریکٹر جنرل (پالیسی) محمد سلیم خان ان کے ساتھ شامل ہیں۔ کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام اخباری تراشوں کا جائزہ لے، آڈٹ رپورٹ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے عمل کی جانچ کرے اور یہ تعین کرے کہ 375؍ ٹریلین روپے کا غیر معمولی ہندسہ کیسے رپورٹ ہوا۔ کمیٹی کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ وہ غلط اعداد و شمار رپورٹ کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کرے اور یہ بھی واضح کرے کہ میڈیا میں یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد باضابطہ ردعمل ظاہر کرنے میں تاخیر کیوں ہوئی۔ آڈیٹر جنرل کا یہ فوری اقدام اس اخبار میں شائع ہونے والی ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے جن میں حیران کن بے ضابطگیوں کے اعداد و شمار کو اجاگر کیا گیا تھا، جو ملک کی مجموعی جی ڈی پی سے تین گنا زیادہ تھے۔ سوال اٹھایا گیا تھا کہ ایسی غلطی ملک کے اعلیٰ ترین آڈٹ ادارے سے کیسے سرزد ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے بھی مالی سال 2023-24ء کی سالانہ آڈٹ رپورٹس اے جی پی آفس کو واپس بھیج دی تھیں کیونکہ یہ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل ہی عوام کیلئے جاری کر دی گئی تھیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی اس بات پر بھی ناخوش تھے کہ یہ رپورٹس وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے بھجوانے کے بجائے براہ راست اسمبلی سیکریٹریٹ کو ارسال کی گئیں۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو یہ بھی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ دیکھے کہ آڈٹ رپورٹس پارلیمنٹ کو جمع کرانے سے قبل کیسے پراسیس کی جاتی ہیں، کیونکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ داخلی کمزوریوں اور طریقہ کار کی خامیوں نے اس بڑی غلطی کو جنم دیا۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو دس روز میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے نتیجے میں اے جی پی آفس میں ردوبدل یا محکمانہ کارروائی ہو سکتی ہے۔ ادارہ پہلے ہی ٹائپنگ کی غلطیوں (ٹائپوز) کا اعتراف کر چکا ہے لیکن اب ادارے کو اندرونی کمزوریوں کے سنگین الزامات کا بھی سامنا ہے۔ سرکاری ذرائع نے اس اخبار کو بتایا کہ ’’ممکن ہے کچھ لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا جائے‘‘ کیونکہ نئے آڈیٹر جنرل اپنے دفتر میں جوابدہی قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں، اس نے ریاست کو اعلیٰ ترین سطح پر شرمندہ کیا ہے۔ ذمہ داری طے کی جائے گی اور جس کی غفلت یا ملی بھگت کا الزام ثابت ہوا، اس کیخلاف کارروائی متوقع ہے۔ ملک کے سب سے بڑے آڈٹ ادارے پر نظریں جمی ہونے کے وجہ سے یہ انکوائری نئے آڈیٹر جنرل کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بن چکی ہے تاکہ وہ ادارے کی ساکھ بحال کر سکیں اور آئندہ آڈٹ رپورٹنگ کو قومی شرمندگی بننے سے روک سکیں۔