• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصائب و مشکلات میں توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کی ضرورت و اہمیت

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک بندۂ مومن کوجن حقیقتوں پر ایمان لانا ضروری ہے، ان میں ایک ’’غیب‘‘ بھی ہے، سورۃالبقرہ کے آغاز میں اہل تقویٰ کی تعریف میں سب سے پہلے غیب پر ایمان کا ذکر فرمایا گیا ہے،’’ الذّین یؤمنُون بالغیب‘‘ غیب میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں، جو اس وقت ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں، جیسے: جنّت، دوخ اور عالم آخرت میں پیش آنے والے احوال، اور وہ غیبی نظام بھی شامل ہے، جو اللہ کے حکم سے اس کائنات میں جاری وساری ہے، دنیا کا عام نظام یہ ہے کہ جب کوئی سبب پایا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ وجود میں آتا ہے، آگ ایک سبب ہے اور جلنا اس کا نتیجہ ہے، جہاں آگ لگائی جائے گی، وہاں جلنا بھی پایا جائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کا غیبی نظام یہ ہے کہ بعض اوقات سبب پایا جاتا ہے، مگر نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا، انبیائے کرام ؑکے معجزات میں یہی کیفیت ہوا کرتی تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈالاگیا، لیکن وہ جلانے کی بجائے خوشگوار ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بن گئی۔ (سورۂ انبیاء: ۶۹) اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سبب کے بغیر اس سے پیدا ہونے والا نتیجہ وجود میں آجاتا ہے، انبیائے کرام ؑ کے معجزات میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اس غیبی نظام کے تحت نتائج حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، دعاء اور اللہ تعالیٰ سے رجوع۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا میں اتنی تاثیر ہے کہ وہ فیصلوں کو بدل دیتی ہے۔ (ترمذی عن سلمان فارسیؓ، حدیث : ۲۱۴۹) یوں تو ہر مصیبت میں بندے کو اپنے خالق ومالک سے رجوع کرنا چاہئے، اصل علاج یہی ہے کہ دروازۂ غیب پر دستک دی جائے۔

رسول اللہ ﷺ نے جیسے بہت سے امراض میں مادی دواؤں کی رہنمائی فرمائی ہے اور حدیث کی کتابوں میں ’’ ابواب الطب‘‘ کے نام سے وہ ہدایات جمع کر دی گئی ہیں، اسی طرح آپ ﷺنے ان آیات اور دعاؤں کی بھی تلقین فرمائی ہے، جو انسان کے لئے اللہ کے حکم سے حفظ وامان کا ذریعہ بنتی ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مصیبت آچکی ہے، دعا ان میں بھی کام آتی ہے، اور جو ابھی نہیں آئی ہے، ان میں بھی کام آتی ہے۔ (سنن ترمذی، ابواب الدعوات، حدیث: ۳۵۴۸) 

اس لئے ان اذکار اور دعاؤں کے پڑھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے، جن کی آپ ﷺ نے دفعِ مصائب کے لئے تلقین فرمائی ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں چند نبوی ہدایات نقل کی جاتی ہیں:آپ ﷺ نے سورۃ الفاتحہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس میں ہر بیماری سے شفاء ہے۔ (سنن دارمی، حدیث : ۲۴۱۳) 

اس لئے زیادہ سے زیادہ سورۂ فاتحہ پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، بالخصوص صحت وشفاء کی نیت سے صبح وشام یہ سورہ پڑھی جائے تو ان شاء اللہ، اللہ کی طرف سے حفاظت ہوگی۔ حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے مروی ہے کہ جو شخص مصیبت کے وقت آیۃ الکرسی اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا۔ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، حدیث : ۳۴۳) 

اس لئے دن اور رات کے آغاز پر آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ سورہ ٔبقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اگر تم صبح وشام تین تین مرتبہ قل ھُو اللہ أحد، قل أعوذُ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس کی سورتیں پڑھ لو تو یہ تمہارے لئے ہر چیز کے مقابلے میں کافی ہے۔ (سنن ابو داؤد، حدیث ۵۰۸۲) یہ سورتیں مختصر بھی ہیں اور تقریباََ ہر چھوٹے بڑے کو یاد بھی رہتی ہیں، اس لئے پابندی کے ساتھ اسے پڑھا جائے اور گھر کے تمام لوگوں سے پڑھوایا جائے۔

متعدد حدیثوں میں جس دعا کا خاص طور پر ذکر آیا ہے، وہ ہے: لا الٰہ إلّا أنت سُبحانک إنّی کُنتُ من الظّالمین، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی شخص پر کوئی مصیبت یا دنیا کی کوئی بلا آجائے اور وہ اس دعا کو پڑھے تو وہ مصیبت دور ہو جائے گی۔ (سنن کبریٰ للنسائی، حدیث : ۴۱۶) جب حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگل لیا تھا تو انہوں نے یہی دعا پڑھی تھی، جس کا خود قرآن مجید میں ذکر ہے، اس دعا کی قبولیت اور تاثیر کا امت کے صالحین نے ہمیشہ تجربہ کیا ہے، اگر صبح وشام سو بار انہیں پڑھا جائے تو ان شاء اللہ وباء سے حفاظت ہوگی۔

سورۂ کہف کے بارے میں مروی ہے کہ جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کی، وہ اگلے جمعہ تک محفوظ رہے گا ۔(شعب ایمان، حدیث : ۲۲۴۹) جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنے کا معمول تو ہمیشہ رکھنا چاہئے، لیکن موجودہ حالات میں خاص طور پر اس کی پابندی ہونی چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ یاسین ایسی بابرکت سورت ہے، جس سے انسان کی ہر ضرورت پوری ہو سکتی ہے، اسی لئے مصائب اوردشواریوں میں مشائخ کے یہاں سورۂ یاسین کی تلاوت کا معمول رہا ہے، اس پر بھی عمل ہونا چاہئے۔

درود شریف ایسا ذکر ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سبب بنتا ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے (مسلم، حدیث : ۴۰۸) رحمت میں مصیبتوں ، بلاؤں ، وباؤں اور بیماریوں سے محفوظ رہنا بھی شامل ہے، اسی لئے مصیبت کے مواقع پر درود شریف کی خاص طور پر کثرت کرنی چاہئے اور اس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام ہونا چاہئے۔ 

انسان پر جو مصیبتیں آتی ہیں، وہ زیادہ تر اس کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں، وہ اپنے خالق ومالک کو ناراض کر لیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات دنیا ہی میں کسی مصیبت کی شکل میں اس کی پکڑ ہو جاتی ہے، اللہ کی ناراضی کو دور کرنے اور اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے کا طریقہ استغفار یعنی اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا ہے، بندہ اپنے آقا کے سامنے گڑگڑائے، گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے عفو ودرگزر کی التجا کرے، یہ عمل بھی مصیبتوں کو دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو قوم استغفار کرتی رہتی ہے، اللہ اسے عذاب میں مبتلا نہیں فرماتا۔(سورۂ انفال: ۳۳) 

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو بندہ ا ستغفار کرتا ہے، وہ اللہ کے عذاب سے مامون رہتا ہے(مسند احمد،حدیث : ۲۳۹۵۳) یہ ایک حقیقت ہے کہ آج امت کی اکثریت نہ صرف گناہوں میں مبتلا ہے، بلکہ زندگی کے ہر گوشے میں شریعت کے احکام کی دھجیاں اڑا رہی ہے، ان حالات میں کیسے اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی اور مصیبتیں دور ہوں گی، لہٰذا مصیبت کی گھڑی میں خاص طور پر استغفار کا اہتمام کرنا چاہئے، استغفار کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کے سلسلے میں جو جو کوتاہیاں اس سے ہوتی رہی ہیں، انہیں یاد کرتے ہوئے مغفرت کا طلب گار ہو اور جن گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو، ان کے بارے میں اللہ سے مغفرت چاہنے کے علاوہ صاحب ِحق کا بھی حق اداکرے، یا ان سے معاف کرالے۔ 

دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے حقوق کے معاملے میں ہر ہر گناہ سے الگ الگ مغفرت چاہنے کی بجائے مطلقاََ تمام گناہوں سے مغفرت کا طلب گار ہو، عربی میں ہی استغفار ضروری نہیں، اگر اپنی زبان میں توبہ واستغفار کے کلمات کہے اور اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرے تو یہ بھی کافی ہے۔ بعض دعائیں آپ ﷺ نے خاص طور پر نقصان سے محفوظ رہنے کے سلسلے میں سکھائی ہیں۔ عافیت، بیماری سے عافیت کو بھی شامل ہے ، اور اپنی عافیت کے ساتھ ساتھ اپنے متعلقین کو بھی شامل ہے، کیوں کہ کسی شخص کے والدین، اولاد ، شوہر بیوی، بھائی بہن مصیبت میں ہوں تو وہ کیسے اپنے آپ کو عافیت میں محسوس کرے گا؟ 

یہ ایک طویل دعا کا ٹکڑا ہے، لیکن اگر اس مختصر فقرے کو بھی پڑھنے کا اہتمام کرے، جس کا یاد کرنا آسان ہے تو ان شاء اللہ نفع ہوگا۔ان اذکار کے علاوہ کسی بھی ضرورت کے لئے’’ نماز حاجت‘‘ رکھی گئی ہے، نماز حاجت کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کو ذہن میں رکھ کر اس کے حصول کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھی جائے، اور نماز کے بعد اس مقصد کے لئے دعا کی جائے، اس نماز کا ذکر حدیث میں تو ہے ہی، خود قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے: پس اپنے آپ کی اور پوری انسانیت کی حفاظت کے لئے کثرت سے نماز حاجت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ اسی طرح آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ صدقہ کے ذریعے اپنے بیماروں کا علاج کیا کرو، اس لئے کہ صدقہ مصیبتوں اور بیماریوں کو دور کردیتا ہے ۔(شعب الایمان، حدیث :۳۲۷۸) اس لئے صدقے کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔

غرض کہ مصیبت کے لمحات میں ظاہری اور مادی تدبیروں کے ساتھ ساتھ اللہ کے خزانۂ غیب سے مانگنا ضروری ہے اور یہی بندۂ مؤمن کی پہچان ہے، کیوں کہ اس کا یقین ظاہری اسباب سے بڑھ کر غیبی اسباب پر ہوتا ہے!!!