احسان شاہد ایک ایسی عجیب و امیر، پرکشش اور متنوع شخصیت کا نام ہے، جس پر مکمل رائے قائم کرنا بیک وقت دلچسپ بھی ہے اور مشکل بھی، کیونکہ وہ ان افراد میں سے ہے جو اپنی ذات کے کچھ گوشوں پر مہارت سے ایسے پردے ڈالے رکھتے ہیں، جن کے پیچھے جھانکنے کیلئے صرف سطحی مشاہدہ اور ظاہری آنکھ کافی نہیں ہوتے بلکہ ایک ایسا طویل اور گہرا مکالمہ درکار ہوتا ہے جو گھات لگا کر چھپے ہوئے کو سامنے آنے پر مجبور کر دے۔ میں احسان شاہد کو پچیس برسوں سے نہ صرف جانتی ہوں بلکہ اْسکی ذات کے صوفی رنگ کی دل سے معترف بھی ہوں، وہ بظاہر ایک مصروف ، کاروباری اور دنیا دار شخص دکھائی دیتا ہے، مگر ظاہر کے پیچھے ایک ایسا اْجلا درویش چھپا ہوا ہے جو انسان دوستی، خدمتِ خلق اور دردِ دل کے جذبے سے معمور ہے۔ ہمدرد لہجہ، خوشگوار چہرہ اور اپنائیت سے بھرا انداز ہر اچھی سوچ کے مالک ملاقاتی کو مسحور کر کے اپنا کر لیتا ہے۔ مجھے یاد ہے سرسری دعا سلام کے دوران وجود سے نکلنے والی خیر کی کرنوں نے پہلی ملاقات میں ہی روح کے پلو میں ایسے دائمی رشتے کی گِرہ لگائی جو شاید زندگی کے اگلے پڑاؤ میں بھی قائم دائم رہے۔ یہ کائناتی سچ ہے کہ ہماری روحوں کو اپنی ہم مزاج روحوں کی پہچان فطری طور پر حاصل ہوتی ہے۔ جب سچے اور خالص احساس والے لوگ ملتے ہیں تو ایک خوشگوار تاثر جنم لیتا ہے، جسے ہم دنیاوی لفظوں میں کیمسٹری، خوش مزاجی یا دوستی کہہ کر بیان کرتے ہیں، مگر اسکا اصل مفہوم کہیں زیادہ وسیع اور لطیف ہوتا ہے۔ میاں چنوں کی گلیوں میں کھیلنے کودنے والا اَتھرا مگر دل کا کھرا لڑکا جو بظاہر ہنسی مذاق، مزاح اور شرارت سے لبریز دکھائی دیتا تھا، کا باطن اخلاص، احساس اور فطری شفافیت کا ایسا پیکر تھا جس میں دور تک اجالے قیام پذیر تھے۔ بچپن سے ہی روایتی کامیابی کے پیمانوں سے مختلف سوچنے والے کیلئے روپیہ پیسہ کبھی بھی مقصدِ حیات نہیں تھا، نہ ہی رشتوں میں مفاد اسکی لغت کا حصہ تھا،اس کی ترجیحات ہمیشہ انسانوں کی عزت، تعلق کی گہرائی اور دوسروں کیلئے کچھ کر گزرنے کی خواہش پر مبنی رہیں۔ زندگی نے اسکے سامنے کئی رتبوں کے آپشن رکھے مگر اس نے مسیحائی کی کٹھن راہ چنی اور ہمیشہ اسی کو ترجیح بنائے رکھنے کا عہد کیا ، آج اتنے برسوں بعد وہ پہلے سے زیادہ چاق و چوبند اور تروتازہ دکھائی دیتا ہے ، خدمت خلق نے اسے ایسی توانائی عطا کی ہے جو اسے اٹھارہ گھنٹے دوڑائے رکھتی ہے۔ اسکا وجود مصنوعی دوائیوں کا محتاج نہیں، لوگوں کی آنکھوں سے نکلنے والی دعائوں بھری شعاعوں سے اسکا نظام چارج ہوتا ہے۔ پچھلی سیٹوں پر بیٹھنے اور اپنی پذیرائی سے اجتناب کرنیوالے نے خود کو نہیں، اپنے خلوص کو بڑا کیا اور یہی خلوص آج بھی ہر دل میں اس کی جگہ بناتا جا رہا ہے۔2018 ءمیں اس نے ضرورتمند، بے گھر، اور بے سہارا لوگوں کیلئے مسلم ہینڈز سے مل کر اوپن کچن کی بنیاد رکھی، ایک ایسا خیال جو صرف کھانا دینے تک محدود نہیں بلکہ انسانیت کے وقار کو بحال کرنے کا ایک عملی قدم تھا۔برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی غریب افراد کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں دن کا ایک کھانا تک میسر نہیں، مسلمان یہاں بہت خیراتی کام کرتے ہیں مگر سب ایک حد میں۔ حیران کن طور پر مساجد میں کھانے کا باقاعدہ نظام نہیں، میلاد، محرم، عید یا دیگر مواقعوںپر پکنے والے شاہی کھانے اپنوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔اوپن کچن نے اس روایت کو توڑا ،یہاں کسی بھی رنگ ، نسل اور عقیدے کا فرد 365 دن دوپہر بارہ سے دو بجے تک دو وقت کا تازہ پکا ہوا کھانا حاصل کر سکتا ہے، پانی، جوس، سلاد، ڈبل روٹی، اور موسم کے لحاظ سے کمبل، کپڑے، دوائیاں اور حفظانِ صحت کی بنیادی اشیاء بھی فراہم کی جاتی ہیں۔انہی کاوشوں کے سبب اسے برطانیہ کا سب سے بڑا اعزاز مل چکا ہے۔مگر اس کی جدوجہد اپنی کمیونٹی اور عقیدے کیخلاف متحرک تنگ نظر سوچ کا آئینہ صاف کرنا ہے، اس نے اپنے لوگوں کو بتایا کہ جس معاشرے میں رہتے ہو وہاں الگ تھلگ رہنے کی بجائے اسے اپناؤ۔اپنے کاروبار میں مقامی لوگوں کو بھی ملازمتیں دو، غمی خوشی اور تہواروں میں انھیں یاد رکھو ، پھر وہ خائف ہو کر تمہارے خلاف ملک بدری کے جلوس نہیں نکالیں گے بلکہ تمہاری حمایت میں بولیں گے۔آج مختلف اداروں کی رپورٹ کے مطابق اوپن کچن کے کھانے اور نفسیاتی رہنمائی کے سبب چوری چکاری اور دیگر جرائم میں واضح کمی ہوئی ہے۔ حوصلہ ہارنے والے بے شمار لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں ،ان میں سے کچھ سے ملاقات ہوئی جو اب والینٹئیرز کی حیثیت سے آتے ہیں ، احسان شاہد اب بے گھر افراد کی آسودگی کی علامت چھت بنانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جہاں لوگوں کی دیکھ بھال کر کے انہیں زندگی کی ڈگر پر روانہ کیا جا سکے گا۔خدا کرے احساسِ تشکر اور محبت میں ڈوبے ہوئے میرے بھائی کی یہ خواہش جلد پایہ تکمیل کو پہنچے۔