• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلشاد عالم

گزشتہ ایک ماہ ایسا گزرا جیسے وقت نے دل کی دھڑکنیں روک دیں۔ غزہ کی گلیاں اب بچوں کی ہنسی سے خالی ہیں، کھلونے خاموش ملبے تلے دبے پڑے ہیں۔ ایک ماں نے اپنی ننھی کلیوں کو رات بھر گود میں لپٹائے رکھا، مگر صبح اس کے نازک خواب سرد لاشوں میں بدل گئے۔ 

یہ منظر صرف ایک خاندان کا نوحہ نہیں، بلکہ اُمتِ مسلمہ کے ضمیر پر گہرا سوال ہے، ہم کب تک اس فریاد کو سن کر بے حس رہیں گے اسپتالوں کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ بچے بھوک سے نڈھال، سرجن آخری دعا کے بعد خود ملبے میں دفن، اور نرسوں کے لبوں پر بس ایک جملہ: "اب دوائیں نہیں رہیں، امید نہیں رہی، بس دعا باقی ہے۔" یہ کیفیت نہ صرف انسانی تباہی کی داستان ہے، بلکہ ایمان کی آزمائش بھی ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ صرف آنسو بہانا کفایت نہیں کرتا، عمل اور اتحاد کا تقاضا بھی اسی شدت سے سامنے کھڑا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: "اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو پکار رہے ہیں؟(سورۃ النساء: 75) " یہ آیت صریح طور پر امت کے ہر فرد سے سوال کرتی ہے۔ آج جب بچے، بوڑھے اور معصوم عورتیں خون و آہ میں پستی ہیں، تو یہ لفظ ہمیں ہماری اخلاقی اور دینی ذمہ داری کی طرف واپس بلاتے ہیں۔ یہ محض بیانیہ نہیں، بلکہ ایک عملی پکار ہے کہ ضمیر کو حرکت میں لایا جائے ،ورنہ تبدیلی کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔

خان یونس میں ایک خاندان سجدے میں گیا اور دھماکے نے ان کی زندگی ختم کر دی، وہ سجدے کی حالت میں شہید ہوئے۔ ان کی پیشانیوں پر مٹی اور زبانوں پر اللہ کا ذکر تھا، یہ مناظر ایمان کی ایسی روشن تصویریں ہیں جو زندوں کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ شہادت اگرچہ فرد کے لیے جنت کا پروانہ ہے، مگر ہمیں ان قربانیوں سے سبق لینا ہوگا کہ آواز کو سن کر مدد تک پہنچنا ہمارا فریضہ ہے، نہ کہ صرف نوحہ و تعزیت۔

رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے: "مومن مومن کے لیے ایک عمارت کی مانند ہے جس کا ہر حصہ دوسرے کو سہارا دیتا ہے۔"(صحیح بخاری) یہ حدیث امت کے باہمی فرائض کی جامع تصویر پیش کرتی ہے۔ اگر ہم ایک عمارت کی مانند مضبوط رہیں تو مظلوم کا بوجھ بانٹنا ممکن ہے، اگر ہم ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا رہیں تو مظلوم مزید تنہا ہو گا۔ ہمارے الفاظ، ہمارے اعمال اور ہماری تنظیمی کوششیں اسی ایمان کی عمارت کو مضبوط کریں گی یا کمزور کر دیں گی۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:"جو شخص اپنی مظلومیت کے دفاع میں قتل کیا جائے، وہ شہید ہے۔"(جامع ترمذی) یہ فرمان غزہ کے شہداء کے مرتبے کی تصدیق ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مظلوم کا دفاع اللہ کے نزدیک عظیم مقام رکھتا ہے۔ مگر اس حدیث کا دوسرا پہلو بھی ہمارے سامنے ہے: شہادت مظلوم کا اجر ہے، لیکن زندہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دفاع کے مراحل میں خاموشی اختیار نہ کرے، بلکہ زبان، قلم، مال اور ہر دستیاب وسیلے سے مظلوم کو سہارا دے۔

نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی: الدعاء سلاح المؤمن "دعا مومن کا ہتھیار ہے۔" دعا وہ طاقت ہے جو دل کو نرم کرتی اور آسمان تک آواز پہنچاتی ہے، مگر دعا کو اعمال کے ساتھ جوڑنا وقت کا تقاضا ہے۔ خلوصِ دعا جب صدقہ، امدادِ قلبی اور عملی مدد کے ساتھ ملے تو وہی دعا کائنات میں حرکت لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ورنہ صرف زبان کی حرکات رہ جائیں گی، جن کے پیچھے کوئی قدم نہ ہوگا۔ صدقہ و خیرات کی فضیلت کی مثال دیتے ہوئے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا گیا مال بے حساب برکت کا باعث بنتا ہے۔ (سورۃالبقرہ)

یہ آیت ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد صرف انسانیت کا فریضہ نہیں، بلکہ ایک ایمان افروز عمل ہے جو دنیا و آخرت میں نفع پہنچاتا ہے۔ شفاف امدادی مہمات، منصفانہ تقسیمِ وسائل اور متاثرین تک درست رسانی اسی روحِ وحی کا تقاضا ہے۔

قرآن نے اتحادِ امت کی اہمیت واضح کی: سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ (سورۂ آل عمران: 103) امّت کی بقا اسی اتحاد و یکجہتی میں ہے، جب جماعتیں، ادارے اور قومیں ایک سمت مشترک کوشش کریں گی تو کمزور سے کمزور بھی سماجی و سیاسی دباؤ میں مضبوط رقم ہو سکے گا۔ ہماری تقسیمیں مظلوم کے دشمن کو سہارا دیتی ہیں، اس لیے اتحاد کو فوقیت دینی ہوگی۔

رسول اکرم ﷺ کی یہ ہدایت بھی ہمارے سامنے ہے: جو تم میں سے برائی دیکھے، اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر وہ نہ کر سکے تو زبان سے، اور اگر وہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا جانے۔ (صحیح مسلم) ظلم پر خاموشی ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ دل سے نفرت کرنا کفایت نہیں کرتا،یہ جذبہ جب عمل میں ڈھلتا ہے تو امت کی حقیقی طاقت ظہور پذیر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ صبر کا تسکین بخش وعدہ ارشاد فرماتا ہے: صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو، جو مصیبت میں کہتے ہیں: "ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔"(سورۃالبقرہ)

فلسطین کی آزمائش میں صبر کے جلوے ابھرتے ہیں، مگر ہمارا صبر یہ نہیں کہ ہم صرف برداشت کریں، صبرکا مطلب یہ بھی ہونا چاہیے کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے رہیں، اس کی مدد کریں اور ظلم کے خلاف حق کے مطابق قدم اٹھائیں۔ جسے صبر پر فخر ہے، وہی برحق حرکت کا سہارا بن سکتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے ایک اور عالی کلام فرمایا: "مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کا ہر حال اس کے لیے خیر ہے..."(صحیح مسلم) یہ بات ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ محروم و مظلوم کی فریاد، ہماری نیتوں اور اعمال کی جانچ ہے۔ اگر ہم نے اپنے ایمان کو محض لفاظی تک محدود رکھا تو حالات بدلیں گے نہیں، مگر اگر ہم ہر حال میں خیر دیکھ کر عمل کریں تو خداوندِ رحمان کی اعانت ہم پر نازل ہوگی۔ قرآن ہمیں قوتِ ارادی کا درس دیتا ہے: دشمن سے مقابلے میں سستی مت دکھاؤ۔ (سورۃ النساء: 104) یہ حکم ہمیں آواز دیتا ہے کہ وقتی تکالیف کے سامنے گھبراہٹ اختیار نہ کریں،اگر ہم اپنی ذمہ داری نبھائیں گے تو اللہ کی مدد ہم تک پہنچے گی اور انسانی بھلائی کا سفر جاری رہے گا۔

غزہ کے شہداء اور معصوم بچوں کی سسکیاں آج بھی آسمان کو چیر رہی ہیں۔ وہ سوال کر رہے ہیں کہ امّت کب جاگے گی؟ ظلم کی رات لمبی ضرور ہے مگر ہمیشہ کی نہیں۔ ہمارا انتخاب اس لمحے فیصلہ کن ہے یا تو ہم مظلوموں کا ساتھ دے کر تاریخ کے روشن باب میں اپنا حصہ رکھیں گے، یا خاموشی کے اندھیروں میں گم ہو کر مستقبل کے سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہیں گے۔ اے اللہ! اہلِ فلسطین کی قربانیوں کو قبول فرما، شہداء کے درجات بلند فرما، زخمیوں کو شفا عطا فرما، اور امتِ مسلمہ کو بیداری، اتحاد اور غیرتِ ایمانی عطا فرما تاکہ ہم زبان اور عمل دونوں سے مظلوموں کے مددگار بن سکیں۔ (آمین)

اقراء سے مزید