ڈاکٹر نعمان نعیم
’’کعبۃ اللہ‘‘ ربِ ذوالجلال کا مقدس گھر ہے، یہ مرکزِ یقین ، مقامِ رُشد اور مسکنِ ہدایت ہے، یہ در درِ عزّت و توقیرہے ،یہ مکان جائے تطہیر و تقدیس ہے، یہ منزل، منزلِ مراد ہے، یہ جگہ حرمت و تعظیم کا مستقر ہے، اس کی عظمت اور اس کا مقام کیا ہے؟ کلام اللہ سے پوچھئے۔ عرشِ عظیم کاربّ اس کی تقدیس و تحریم کی گواہی دیتا ہے۔ ارشادِ ربِ جلیل ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مقام ِ محترم کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا ہے ‘‘(سورۃ المائدہ، ۹۷)
یعنی بیت الحرام ’’کعبۃ اللہ‘‘ وہ معزز گھر ہے جو مسلمانوں کے دینی تشخص ، ملّی تحفظ اور اجتماعی وحدت کا شیرازہ بند، معاشرتی و سماجی زندگی کے قیام کا ذریعہ اور شعائرِ اسلامی کی بقاء کا ضامن ہے۔
اللہ ربّ العزت نے اس مبارک گھر کو ثواب پانے کی جگہ اور بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ بھی مقرر فرمایا ہے یعنی جو شخص ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے، وہ بار بار یہاں آنے کے لیے بے قرار و مضطرب ہو جاتا ہے، اس کے دل میں زیارت کی تڑپ بڑھ جاتی ہے، اللہ کے گھر کے دیدار کا ایسا شوق پیدا ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور بھلا یہ شوق کیوں کر ختم ہو کہ کعبۃ اللہ تو جائے امن وسلامتی ہے۔
قرآن اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے، ارشادِ ربِ کریم ہے:’’اور ہم نے ’’بیت اللہ‘‘ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن کی جگہ بنایا ‘‘۔(سورۃ البقرہ۱۲۵) ایک دوسرے مقام پر مزید فرمایا، اس حرمِ مقدس میں جو داخل ہوا ،وہ دراصل امن و سلامتی کی آغوش میں آگیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا‘‘۔(سورۂ آل عمران ۹۷)
علاوہ زیں بیت اللہ کائناتِ ارضی پر اللہ کی عبادت و بندگی اور ہدایت کا اوّلین مرکز ہے، کعبۃاللہ کی بنیاد سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے رکھی، آپؑ نے اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیلؑ کی نشاندہی پر اس جگہ ایک حجرہ تعمیر فرمایا اور حکمِ الٰہی کے مطابق اس کا طواف کیا، پھر بحکمِ الٰہی اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے لگے، چناںچہ اس خانۂ مکرم کو انسانیت کے لیے قبلۂ اوّل قرار دیا گیا، بعد ازاں طوفانِ نوح میں کعبۃ اللہ کی دیواریں گرگئیں اور یہاں صرف مٹی کا ایک ٹیلہ ساباقی رہ گیا، پھر معمارِ حرم حضرت ابرہیم خلیل اللہ ؑاور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ ؑنے خانہ کعبہ کو اس کی قدیم بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا۔
جیسا کہ ارشادِ ربّ قدیر ہے’’اور (وہ وقت یاد کرو کہ) جب ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے (اور یہ دعا ان کی زبانوں پر جاری تھی) اے پروردگار ،ہماری یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ (سورۃ البقرہ ۱۲۷)
قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے جو لوگوں کے لیے متبرک جگہ اور سارے جہاں والوں کی ہدایت کا مقام ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۹۶) خانہ کعبہ روئے زمین پر اللہ کا پہلا گھر ہے‘ اللہ اس کا محافظ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، یقیناً وہی ہے جو بکہ میں ہے، بہت با برکت اور جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔َ (آل عمران : 96)
تاریخ میں بیت اللہ کی حرمت و حفاظت کے لیے کئی قسم کے معاہدے ہوئے ہیں۔ انہیں مختصر وضاحت کے ساتھ ترتیب وار بیان کیا جاتا ہے:
1. جرہم اور خزاعہ قبیلے کے ساتھ معاہدہ:۔ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد اور قبیلہ بنو جرہم کعبہ کے خادم بنے۔ بعد میں یہ خدمت قبیلہ خزاعہ کے پاس آئی۔ یہ قبیلے بیت اللہ کی دیکھ بھال اور حفاظت پر مامور رہے۔
2. بنو شیبہ (بنو عبد الدار) کے ساتھ معاہدہ:۔قریش کے اندر باقاعدہ طور پر "سدانہ" (کعبۃ اللہ کی چابی رکھنا) اور "سقايہ و رفادہ" (حجاج کو کھانا پانی دینا) کے حقوق تقسیم ہوئے۔ عبد مناف اور عبد الدار کی اولاد کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے مطابق کعبہ کی چابی رکھنے کی خدمت بنو عبد الدار کے حصے میں آئی۔
یہ خدمت آج تک بنو شیبہ کے پاس ہے، اور یہی وہ خانوادہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: "یہ چابی ہمیشہ کے لیے تمہارے پاس رہے گی، اسے تم سے کوئی نہیں لے سکتا سوائے کسی ظالم کے۔"
3. صلحِ حدیبیہ (۶ ہجری):۔ قریش اور مسلمانوں کے درمیان معاہدۂ حدیبیہ ہوا۔اس معاہدے کے تحت اگلے سال (۷ ہجری) مسلمانوں کو امن و امان کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کا حق ملا۔ یہ پہلا باقاعدہ سیاسی معاہدہ تھا جس میں بیت اللہ کی زیارت و حفاظت کا پہلو بھی شامل تھا۔
4. فتح مکہ کے بعد اعلانِ حرمت:۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کرنے کے بعد اعلان فرمایا: "اللہ نے اس شہر کو حرمت والا بنایا ہے، یہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا، نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔" (صحیح بخاری)اس کے بعد پورا عرب اور بعد کی حکومتیں اس حرمت کو تسلیم کرنے پر متفق رہیں۔
5. اسلامی خلافت کے دور کے معاہدے:۔ خلفائے راشدین ؓنے قبائل کے ساتھ یہ معاہدہ برقرار رکھا کہ خانۂ کعبہ کی چابی اور اندرونی خدمت بنو شیبہ کے پاس ہی رہے گی۔ جبکہ ریاست (مدینہ → دمشق → بغداد → قسطنطنیہ → ریاض) اس کی بیرونی حفاظت اور انتظام کی ذمہ دار ہوگی۔یہ ایک طرح کا تاریخی Social Contract ہے جو صدیوں سے برقرار ہے۔
6. عثمانی و سعودی ادوار:۔ عثمانی سلطنت نے بھی باقاعدہ معاہدوں اور فرمانوں میں لکھا کہ بنو شیبہ کے پاس سدانہ کا حق قائم رہے گا۔سعودی حکومت نے بھی اسی کو برقرار رکھا۔ آج بھی کعبہ کی چابی بنو شیبہ خاندان ہی کے پاس ہے، اور جب بھی کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا ہے، یہ خدمت انہی کے ہاتھوں سے انجام پاتی ہے۔
بیت اللہ کی حفاظت سے متعلق بڑے معاہدے:
1. بنو جرہم اور خزاعہ (ابتدائی قبائل)2. قریش کے اندرونی معاہدہ (عبد مناف و عبد الدار کی تقسیم)3. فتح مکہ سے قبل صلح حدیبیہ (سیاسی معاہدہ)4. رسول اللہ ﷺ کا اعلانِ حرمت (قیامت تک کے لیے)5. خلفاء و حکومتوں کا تسلسل (بنو شیبہ کے ساتھ خدمت کا معاہدہ)6. عثمانی و سعودی عہد کا احترام (بنو شیبہ کے ساتھ آج تک جاری ہے)
بیت اللہ کی حفاظت میں حصہ لینے والی بڑی حکومتیں:
1. قریش اور مکی عرب (اسلام سے پہلے):۔ اگرچہ وہ شرک میں مبتلا تھے مگر کعبہ کی تعظیم سب قبائل میں مسلم تھی۔قریش نے "سقايہ و رفادہ" (حجاج کو پانی اور کھانا دینا) اور "سدانہ" (چابی کی خدمت) کو باقاعدہ نظام بنایا۔
2. نبوی دور اور خلافتِ راشدہ:۔رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ کو بتوں سے پاک کیا۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے حرم کی حفاظت اور انتظامات کے لیے سپاہی اور خدام مقرر کیے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں کعبہ کے اطراف باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ بنا۔
3. اموی خلافت:۔ اموی حکمرانوں (خصوصاً عبدالملک بن مروان اور اس کے بعد) نے کعبہ کی تعمیر نو اور حفاظتی انتظامات کیے۔ حجاج بن یوسف کے حملے میں کعبہ کو نقصان پہنچا، لیکن عبدالملک نے بعد میں تعمیر مکمل کروائی۔
4. عباسی خلافت:۔ عباسی خلفاء نے مکہ مکرمہ کے انتظامات پر خاص توجہ دی۔انہوں نے قریش اور بنو شیبہ (چابی بردار خاندان) کی ذمہ داری کو تسلیم کیا اور حرم میں مستقل محافظ تعینات کیے۔ کعبہ کے غلاف (کسوہ) کو باقاعدہ طور پر مصر سے بھیجنے کی روایت عباسی دور میں مضبوط ہوئی۔
5. فاطمی اور ایوبی دور:۔ مصر کی فاطمی حکومت اور بعد میں صلاح الدین ایوبی کے دور میں بھی خانہ کعبہ کی حفاظت اور کسوہ (غلاف) بھیجنے کا سلسلہ قائم رہا۔
6. مملوک سلطنت (مصر و شام):۔ مملوک حکمرانوں نے حرمین شریفین کے لیے مستقل محافظ، سپاہی اور مالی انتظامات کیے۔ کسوہ مصر سے بڑی شان و شوکت سے لے جائی جاتی تھی۔
7. عثمانی سلطنت:۔ خلافتِ عثمانیہ نے حرمین کی خدمت کو اپنے شرف کا حصہ سمجھا۔ کعبہ کی تعمیر، صفائی، آب رسانی (زم زم)، اور حاجیوں کے لیے بہترین حفاظتی نظام عثمانیوں نے بنایا۔"صُرَّۃ الحجاز" (سالانہ بجٹ/فنڈز) قسطنطنیہ سے مکہ مدینہ کے لیے بھیجا جاتا تھا۔کسوہ بھی ترکی و مصر سے جاتی رہی۔
8. سعودی حکومت (موجودہ دور):۔ 1924ء کے بعد سے سعودی حکومت نے حرمین کا انتظام سنبھالا۔ آج سب سے بڑا حفاظتی اور انتظامی نظام سعودی حکومت کے پاس ہے:کعبہ کی تزئین و آرائش،جدید سیکیورٹی فورسز، لاکھوں حاجیوں کے لیے انتظامات، کسوہ کی تیاری اب مکہ میں ہی ہوتی ہے۔
آج جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مملکت عربیہ سعودیہ کے مابین حالیہ معاہدہ بھی درحقیقت تحفظ کعبۃ اللہ بہ الفاظ دیگر حرمین شریفین کے تحفظ کا معاہدہ ہے، جس کی سعادت پوری مسلم دنیا میں پاکستان کے حصے میں آئی، تاریخ میں یہ لکھا جائےگا، اللہ نے یہ موقع پاکستان کو بھی دیا۔
دنیا کے بت کدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسبان ہیں اس کے وہ پاسبان ہمارا
قرآن مجید میں اسے (عتیق) قدیم گھر قرار دیا گیا ہے۔فرمایا:اور اس قدیم گھر کا خوب طواف کرو۔(سورۃالحج 29) عتیق کے دو معانی ہیں : ایک معنی قدیم ہے۔ زمین پر اللہ کا پہلا تعمیر کیا جانے والا گھر ہونے کی وجہ سے اس کا نام ’’اَلْبَيْتُ الْعَتِيْقُ‘‘ ہے۔ (البیت العتیق) کا دوسرا مطلب ہے ایسا آزاد کہ جس کا کوئی مالک نہیں۔ عتیق کا ایک معنی” آزاد "ہے یعنی اللہ کے سوا اس کا مالک کوئی نہیں جو اس میں آنے سے کسی کو روک سکے۔
یہ مشرکین مکہ کا ظلم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے آنے والے مسلمانوں کو اس گھر سے روکتےتھے اور یہ اس گھر کی آزادی پر حملہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں، پس وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں اور اگر تم کسی قسم کے فقر سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا، اگر اس نے چاہا۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ (سورۃالتوبہ : 28)
ایسا عتیق کہ کسی کو حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو کعبۃ اللہ میں داخلے سے روکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستے سے اور اس حرمت والی مسجد سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے اس طرح بنایا ہے کہ اس میں رہنے والے اور باہر سے آنے والے برابر ہیں اور جو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب سے مزہ چکھائیں گے۔(سورۃالحج : 25)
کعبہ شعائر اللہ میں سے ہے اور شعائر اللہ کی بے حرمتی پر غیبی قوتوں کا متحرک ہونا نظام فطرت کا ایک ناگزیر حصہ ہے جس کا مظاہرہ تاریخ اس سے قبل بھی متعدد بار دیکھ چکی ہے۔ ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں کے لشکر کو اللہ نے ابابیلوں کے ذریعے تہس نہس کر دیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں وہ اعدائے کعبۃ اللہ ’’کعصفٍ مأکول‘‘ یعنی کھائے ہوئے بھُس کی طرح بکھرے پڑے تھے۔ ابرہہ، یمن کا ایک نصرانی حاکم تھا۔
وہ ایک بہت بڑا لشکر جس کے ساتھ ہاتھی بھی تھے، اپنے ہمراہ لے کر بیت اللہ کو ڈھانے کی نیت سے مکہ پہنچا۔ جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان اس وادی میں پہنچا جس کا نام بعد میں وادی محسر پڑا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے گروہ در گروہ پرندے نمودار ہوئے، جن کے پنجوں اور چونچوں میں کنکر تھے، انھوں نے اس لشکر پر وہ کنکریاں پھینکیں جن سے ابرہہ اور اس کا لشکر ہلاک ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کیا تونے نہیں دیکھا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کس طرح کیا۔کیا اس نے ان کی تدبیر کو بے کار نہیں کر دیا؟اور ان پر جُھنڈ کے جُھنڈ پرندے بھیج دیے۔
جو ان پر کنکر (پکی ہوئی مٹی) کی پتھریاں پھینکتے تھے۔(سورۃالفيل) تو اس نے انھیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک دیا اور اس پر اپنے رسول اور ایمان والوں کو غلبہ عطا فرما دیا۔‘‘(صحیح بخاری)
ابرہہ کی کیا اوقات بڑے بڑے ظالم حتیٰ کہ دجّال بھی یہاں داخل نہیں ہو سکے گا۔حضرت انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :’’ دجال ہر شہر میں جائے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے ، ان دونوں شہروں کے ہر دروازے پر فرشتے صفیں بنائے ہوئے ان کی نگرانی کر رہے ہوںگے ، پھر مدینہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ تین مرتبہ کانپے گا جس سے اللہ تعالیٰ ہر کافرومنافق کو اس سے نکال دے گا۔‘‘ (صحیح البخاری:1881)
جو ظالم بھی اس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کرے گا اس کا یہی حال ہو گا۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ایک لشکر کعبہ سے جنگ کے لیے آئے گا، جب وہ بیداء (مکہ کے باہر کھلے میدان) میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔‘‘ (بخاری : ۲۱۱۸ ) اور آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی بیت اللہ کا حج اور عمرہ جاری رہے گا۔‘‘(صحیح بخاری )جب تک کعبہ قائم ہے تب تک لوگ قائم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی ایسی شاندار حفاظت کی ہے کہ کوئی جابر و ظالم اسے گرا نہیں سکتا۔ اس کا وجود لوگوں کے زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے،اس کی دلیل یہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اللہ نے کعبہ کو، جو حرمت والا گھر ہے، لوگوں کے قیام کا باعث بنایا ہے۔ (سورۃالمائدہ آیت 97)
اس آیت میں الناس سے مراد اس دور کے اور اس سے پہلے اور پچھلے قیامت تک کے سب لوگ مراد ہیں کہ کعبہ کا وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے اور دنیا کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔کعبہ اللہ کے خاتمے سے لوگوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
جب اللہ کو یہ منظور ہوگا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کردیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا۔ جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ قیامت کے قریب (اللہ کی ڈھیل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے) جب ایک حبشی کعبۃ اللہ کو گرا دے گا تو اس کے بعد بہت جلد قیامت آ جائے گی۔
نبی کریم ﷺ علاماتِ قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’(قیامت کے قریب) ایک پتلی پنڈلیوں والا حبشی بیت اللہ کو گرا دے گا۔‘‘مزید فرمایا : ’’گویا میں وہ دیکھ رہا ہوں، کالا ٹیڑھے پاؤں والا ہے، اس کے ایک ایک پتھر کر کے اکھیڑ رہا ہے۔‘‘ (بخاری : ۱۵۹۱ )
رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، اور آپ کو پسند یہ تھا کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو آپﷺ کو بیت اللہ کا قبلہ ہونا اس قدر پسند تھا کہ قبلہ بدلنے کی امید میں بار بار آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یقیناً ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں، تو یقینا ًہم تجھے اس قبلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تو پسند کرتا ہے۔ (سورۃالبقرۃ :144)پھر آپﷺ کو بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا۔
حدیث نبویﷺ کے مطابق ان شاء اللہ مسلمان پوری دنیا پر غالب آنے والے ہیں جس کا علم دنیا کے تمام مسخ شدہ مذاہب کو بخوبی ہے تبھی تو مسلمانوں کے اندر اختلافات کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔ بیرونی قوتوں کوعلم ہے کہ جس دن مسلمانوں کا اتحاد ہوگیا تو اس دن کے بعد مسلمان پوری دنیا پر غالب ہو ں گے۔
عالم کفر نے اگر بیت اللہ پر حملہ کر دیا تو وہ یہ نہیں جانتے کہ مسلمان بیت اللہ اور نبی اکرمﷺ کی حرمت کی ناموس کی حفاطت کے لیے قیصر وکسریٰ کو پاش پاش کر سکتے ہیں، یہ سمندروں کا سینہ چیر سکتے ہیں، یہ سومنات کو کرچیوں میں بدل کر پاؤں کے نیچے روند سکتے ہیں۔
امت مسلمہ بھوک پیاس برداشت کرسکتی ہے پیٹ پر پتھر باندھ سکتی ہے، تپتے ہوئے صحراؤں کی ریت پر لیٹ سکتی ہے، سولی چڑھ سکتی ہے، مگر اپنے نبی ﷺ اور بیت اللہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو برداشت نہیں کر سکتی۔ تحفظ حرمین کےلیے تمام مسلمان متحد ہیں۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے حوالے سے دو رائے نہیں ہو سکتی۔حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض ہے ایمانی جذبہ ہے۔
حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک تاریخ ساز معاہدہ طے پایا۔اس معاہدے کے مطابق ایک ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔حرمین شریفین کی حفاظت ہر مسلمان کے ایمانی غیرت کا تقاضا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ خوش آئندہے ۔حرمین شریفین کی حفاظت صرف سعودی عرب نہیں پوری امت مسلمہ کی ذمے داری ہے، عالم اسلام کی قیادت مل بیٹھ کر اختلافات ختم کرے۔ صہیونی قوتیں ایک بار پھر عالم اسلام کو میدان جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔
سعودی عرب سے ہمارا روحانی اور عقیدت کا رشتہ ہے۔ حرمین شریفین کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ اس کی حفاظت ہمارے لیے اعزاز اور فخر کا باعث ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب امت مسلمہ کے دو روشن ستارے ہیں’دفاعی معاہدہ دوستی اور بھائی چارے کی بہترین مثال ہے‘ پاکستان اور سعودی عرب یک جان اور دو قالب ہیں‘یہ معاہدہ سے پوری امت مسلمہ کے لیے عزت و افتخارکا باعث ہے۔