• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا بہو پر ساس سُسر کی کفالت لازم نہیں ہے

تفہیم المسائل

سوال: خاتون خود لیڈی ڈاکٹر ہے، جاب کرتی ہے، اس کی آمدنی پر شوہر اور ساس سسر کا کتنا حق بنتا ہے، حتیٰ المقدور خاتون اپنے بچوں اور گھر کی دیگر ضروریات پر خرچ کرتی ہے۔ عورت پر اپنے ساس سسر، شوہر کے دیگر رشتے دار یا دوست احباب کی خدمت کرنا شرعاً لازم ہے یا نہیں؟

جواب: دینِ اسلام کا امتیاز ہے کہ اُس نے خواتین کے حقِ ملکیت کو نہ صرف تسلیم کیا، بلکہ اسے اپنی ذاتی املاک میں تصرُّف کی اجازت دی ہے، بیوی جو کچھ کمائے، اس میں اُسے تصرُّف کی پوری آزادی ہے، شوہر کو یہ حق نہیں کہ اس پر قبضہ جمائے یا اپنی مرضی کے کاموں میں خرچ کرنے پر بیوی کو مجبور کرے، اسی طرح ساس، سسر کا اُس کی کمائی پر کوئی حق نہیں۔ 

علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ شوہر کو اپنی بیوی کے مال میں تصرُّف کرنے کا حق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ، ماسوااس کے کہ باہمی رضامندی سے تجارت ہو، (سورۃالنساء:29)‘‘اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی بھی مسلمان کامال حلال نہیں، مگر جب وہ خوش دلی سے دے ، (فتح القدیر، جلد4،ص:245)‘‘۔

شریعت نے بیوی کا نان ونفقہ اور اس کے دیگر تمام ضروری اخراجات شوہر کے ذمے عائد کیے ہیں، خواہ بیوی کتنی ہی مالدار ہو یا برسرِ روزگارہو اور شوہر غریب ہو، تب بھی بیوی کا خرچہ شوہر کے ذمے لازم ہے، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’ مرد پر اپنی بیوی کا نفقہ واجب ہے، بیوی مسلمان ہو یا ذمیہ ،نادار ہو یا مال دار، اُس کے ساتھ ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو، بالغہ ہو یا نابالغہ، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص:544)‘‘۔

آپ نے لکھا کہ ’’حتیٰ المقدور خاتون اپنی کمائی سے اپنے بچوں اور گھر کی دیگر ضروریات پر خرچ کرتی ہے‘‘، یہ شوہر کے ذمے دَین (قرض) ہوگا، مالی استطاعت حاصل ہونے کے بعد شوہرپر بیوی کو اس کی ادائی لازم ہوگی، کُتبِ فقہ میں ہے: ’’اگر چھوٹے بچے کی ماں مالدار اور باپ تنگدست ہو تو اُسے حکم دیاجائے کہ وہ چھوٹے بچے پر خرچ کرے اوریہ خرچہ باپ کے ذمے دَین ہوگا، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص:562، ردالمحتار ،جلد3،ص:615، البحرالرائق، جلد4،ص:226)‘‘۔

بہو پر ساس سسر یا دیگر رشتے داروں کی خدمت کرنا لازم نھیں ہے، البتہ اخلاقی اعتبار سے رشتوں کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے، دوسرے مکینوں سے بے خبر نہیں رہاجاسکتا ،اگر اُن سے حسنِ سلوک برتے تویہ ان کے لیے بلا شبہ باعثِ سعادت ہے اور والدین کی کفالت اورخدمت اولاد پر لازم ہے۔

یہ ہم نے شرعی ضابطہ بیان کیا ہے، کوئی تبرُّع اور فضل و احسان کے طور پر اپنے مال میں سے دوسروں پر خرچ کرے تو یہ ایک پسندیدہ خصلت ہے اور عنداللہ ماجور ہوگا، لیکن چونکہ شرعاً اس پر یہ لازم نہیں ہے، اس لیے خرچ نہ کرنے پر ہدف ِ طَعن وملامت نہیں بنایا جائے گا۔ (واللہ اعلم بالصواب )

اقراء سے مزید