آپ کے مسائل اور ان کا حل
سوال:۔1. اگر ہم کسی کو عبد الرحمٰن، عبدالرزاق، عبد الغفار یا عبدالسّبحان کے بجائے اکیلا رزاق، غفار، رحمان کہتے سنیں تو یہ گناہ صرف ان دو لوگوں کے درمیان رہے گا یعنی جس نے پکارا اور جس نے سنا، یا پھر سب کو ملے گا جس کے کان میں یہ الفاظ گئے۔
2. ایک لسٹ بنادیں، جس سے واضح ہو جائے کن ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری ہے اور کن کے ساتھ نہیں؟
جواب:۔1.واضح رہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے وہ صفاتی نام جو اللہ کے ساتھ خاص ہیں، بندوں کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں ،البتہ اگر ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" لگانا ضروری ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص ان ناموں کو "عبد" کی اضافت کے بغیر استعمال کرے تو اس طرح کرنا ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا البتہ جس کے کان میں یہ لفظ پہنچ جائے اور اس کا ارادہ سننےکا نہ ہو تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔
2.اللہ تعالیٰ کے کن ناموں کے ساتھ "عبد " لگاکر نام رکھنا ضروری ہے اور کن کے ساتھ نہیں ؟ ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
اللہ تبارک وتعالیٰ کے وہ ذاتی یا صفاتی نام جس کے ساتھ " عبد ' لگانا ضروری ہے، بغیر "عبد" کی اضافت کے بندوں کے لیے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں، وہ نام یہ ہیں: اللہ، الرحمٰن، الملک، القدوس، السلام، المھیمن، الجبار، المتکبر، الخالق، البارئ، المصور، الغفار، القھار، الرزاق، التواب، الوہاب، الخلاق، الفتاح، القیوم، الرب، المحیط، الغفور، الأحد، الصمد، الحق، القادر، المحیی، الأول، الآخر، الباطن وغیرہ۔
وہ اسماء جو اللہ کے صفات خاصہ میں سے نہیں، بلکہ وہ اسماء اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں، انہیں صفات مشترکہ بھی کہا جاتا ہے اور ان کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرآن وحدیث، تعامل ِ امت یا عرف ِ عام میں ان اسماء سے غیر اللہ کا نام رکھنا ثابت ہو تو ایسا نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلا: عزیز، علی، کریم، رحیم، عظیم، رشید، کبیر، بدیع، کفیل، واسع، حکیم وغیرہ ۔
اور جن صفات ِ مشترکہ سے غیر اللہ کا نام رکھنا قرآن وحدیث اور مسلمانوں کے تعامل سے ثابت نہ ہو تو ان صفات پر غیر اللہ کا نام رکھنے سے پرہیز لازم ہے اور اگر استعمال کرنا ہے تو لفظ "عبد" کی اضافت کے ساتھ اسے استعمال کیا جائے کیوں کہ اسمائے حسنیٰ میں اصل یہ ہے کہ ان سے غیر اللہ کا نام نہ رکھا جائے ۔(مستفاد از فتاوی عثمانی ،ج:1،ص:50، مکتبہ معارف القرآن )
اس کی تفصیل میں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جو قرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔
دوسری قسم: وہ نام ہیں جو قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمٰن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمٰن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔
بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بناء پر عبدالرحمٰن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘(ماخوذ از تفسیر معارف القرآن ،ج:۴4،ص:132،مکتبہ معارف القرآن)