• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں تو اب کچھ یوں لگتا ہے کہ یہ سونا بھی ایک فنِ لطیف ہے اور یوں اسے باقاعدہ ’’فنون لطیفہ‘‘ میں شامل ہونا چاہئے۔ مثلاً ہمارے ایک دوست ،احباب کے ساتھ گپ شپ کرتے، لطیفے سنانے اور قہقہے لگاتے ہوئے اچانک جیب میں سے تاریک شیشوں کی عینک نکالتے ہیں اور پھر کرسی کے ساتھ ٹیک لگاکر چند منٹوں کی خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ چند منٹوں کی خاموشی دراصل ان کا ’’قیلولہ‘‘ ہوتی ہے مگر احباب کو اس کا علم اس وقت ہوتا ہے جب وہ عینک دوبارہ جیب میں ڈال کر میز پر کہنیاں ٹیکتے ہوئے از سر نو ایک قہقہہ لگاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ حضرات میں اپنی نیند پوری کر چکا ہوں۔ اور اس کے بعد یہ حضرت واقعی تازہ دم نظر آنے لگتے ہیں۔ کچھ ماہر فن ہم نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو کسی ادبی محفل میں مضمون افسانہ یا غزل پڑھے جانے کے دوران باقاعدہ خواب استراحت کے مزے لے رہے ہوتے ہیں لیکن جب اس فن پارے پر بحث کا آغاز ہوتا ہے تو ان کی فیصلہ کن قسم کی گفتگو سے یوں لگتا ہے جیسے اس فن پارے کی ریڈنگ کے دوران باقی شرکائے محفل تو سوئے ہوئے تھے صرف وہی جاگ رہے تھے۔ لیکن کچھ سونے والے ان کے سوا بھی ہیں اور یہ وہ اصحابِ خوابیدہ ہیں جن کا مقابلہ کوئی’’ مائی دالعل‘‘ نہیں کر سکتا۔ ان میں ہمارے ایک دوست بھی شامل ہیں اور اگر اسے " اقربا پروری ’’نہ سمجھا جائے تو یقین جانیں کہ فی زمانہ وہ اس فن کے چیمپئن ہیں۔ یہ حضرت گفتگو کرتے کرتے اچانک خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انکی ٹھوڑی ایک جھٹکے کیساتھ ان کے سینے کے ساتھ جا لگتی ہے اور پھر انکے نتھنوں سے خرخراہٹ سی سنائی دینے لگتی ہے۔ اس فعل کے دوران انکی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ اور بسا اوقات کھلی بھی رہتی ہیں، لیکن یہ کیفیت صرف ایک منٹ تک برقرار رہتی ہے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ ’’سر بلند‘‘ ہوتے ہیں اور گفتگو جہاں سے چھوڑی تھی وہیں سے شروع کر دیتے ہیں، مگر دو تین فقروں کے بعد دوبارہ ٹھوڑی ایک جھٹکے کے ساتھ ان کے سینے کے ساتھ جا ٹکراتی ہے۔ پھر خراٹوں کی آواز آتی ہے اور اس کے ایک منٹ بعد دوبارہ اپنی گفتگو کا ’’بقیہ‘‘ بیان فرمانے لگتے ہیں۔ ان کے ساتھ بات چیت کا ایک سین ملاحظہ فرمائیں :

’’یار کل تم نے آنے کا وعدہ کیا تھا مگر تم آئے ہی نہیں۔‘‘

وہ دراصل میں ایک کام میں ایسا الجھا کہ کوشش کے باوجود نہ آسکا۔ میں اس کے لئے معانی ... خر خر خر خر خر ... چاہتا ہوں۔ ’’،‘‘

کل کا کیا پروگرام ہے ؟

’’کل تو میں نہیں آ سکوں گا۔

’’،‘‘ کیوں ؟ ’’،‘‘

میں کئی دنوں سے ایک منٹ کے لیے بھی ... خر خر خر خر خر ... سو نہیں سکا۔

کل رات سونا چاہتا ہوں۔

اپنے اس دوست کے ساتھ متعدد بار ٹیلیفون پر بھی ہماری گفتگو ہوئی ہے۔ اس کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے۔

ہیلو خاور ؟ ہاں بول رہا ہوں۔ ’’،‘‘ تم ابھی گھر پر ہی ہو۔ کہیں جانا تو نہیں ؟

’’،‘‘خ خ خرخر۔ ’’ہیلو۔ ہیلو۔ ’’وو‘‘ ہیلو۔ ’’،‘‘ !....خ

’’پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید سونے کا یہ انداز بھی اپنی نوع کا فن لطیفہ ہے، لیکن ایک ڈاکٹر دوست سے ملاقات ہوئی تو اس نے تردید کی اور کہا کہ سونے کا یہ انداز فنون لطیفہ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ ایک بیماری ہے۔

ہم نے اس بیماری کے عوامل پوچھے ، تو انہوں نے کہا یہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گے، بس تم ہمارے کہے پر اعتبار کر لو، سو ہم نےاپنے اس ڈاکٹر دوست کے کہنے پر اعتبار تو کر لیا مگر طبیعت خاصی مکدر ہو گئی کہ ان کی اس ’’تشخیص‘‘ کا اطلاق تو خود ہم پر بھی ہوتا ہے۔ ہم بھی ڈائیلاگ ادھورا چھوڑ کر درمیان میں خراٹے لینے لگتے ہیں اور اس دوران کوئی بھیانک خواب دیکھ کر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں، مگر اس وقت تک چڑیاں کھیت چک گئی ہوتی ہیں ہم نے مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی ادھورا ڈائیلاگ کیا۔’’ہیلو‘‘ کے جواب میں انہیں خرخراہٹ سنائی دیتی رہی اور پھر ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ ہمارےاٹھتَّر برس سوتے جاگتے کا قصہ ہیں۔ ہم اس قصے کا مرکزی کردار ہیں۔

تازہ ترین