• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو حیات کا سفر بھی مختصر دورانیے پر محیط ہوتا ہے مگر احساس صرف ایک دو ہفتوں کے بیرونی دورے پر ہی متحرک ہوتا ہے جب انسان ہر ہر لمحے کی ترتیب بنا کر استفادہ کرتا ہے، سوچ یہ تھی کہ اس بار برطانیہ میں مختصر قیام کو صرف علمی و فکری سیر کیلئے وقف کیا جائے گا ، لائبریریوں کی خاموش رفوف، میوزیمز کی اسرار بھری راہوں اور یونیورسٹیوں کی علمی فضا میں کھو جانے کی خواہش دل میں شدت سےمچل رہی تھی۔ایک باقاعدہ شیڈول بھی تیار کر رکھا تھا مگر زندگی کی کتاب میں غیر متوقع موڑ اور انجان صفحات سفر کے دوران ہی کھلتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک تصویر کیا پوسٹ کی، پرانی یادوں کے دریچے یکایک کھل گئے۔ پیغامات کا تانتا بندھ گیا، واٹس ایپ اور ان باکس کی گھنٹیاں مسلسل بجنے لگیں،کئی دعوتوں کو سفر کی تھکن اور وقت کی کمی کا جواز بنا کر مؤخر کیا، مگر کچھ آوازیں ایسی تھیں جنہیں ٹالنا ممکن نہ تھا۔ شاید زمین کا اثر یا اپنائیت تھی کہ چھوٹےبھائی کے کلاس فیلو بھائیوں کی طرح عزیز محمد سجاد کی دعوت رد نہ کرسکی ، صبح آنکھ کھلی تو وہ گھر کے باہر حسبِ وعدہ گاڑی سمیت منتظر تھے۔ شام کو ساجد یوسف کی کاوشوں سےبرپا کی گئی پریس کلب کے آرٹ اینڈ کلچر ونگ کی محفلِ پذیرائی میں پہنچی تو یوں لگا جیسے ایک ہی چھت تلے ادب، صحافت اور فنونِ لطیفہ کی رنگینیاں جمع ہو گئی ہوں،شعر پڑھے گئے ،سیاست پر بات چلی ، ثقافت کے رنگ بکھرے ، تصوف کی رونمائی ہوئی اور یوں وہ شام ایک حسین فسوں میں ڈوب گئی۔

اگلے دن مانچسٹر کی راہیں طے ہوئیں،میاں راشد کی میزبانی میں ایک اور محفلِ محبت منعقد ہوئی جہاں گفتگو سیاست سے شروع ہو کر پنجابی زبان ، تہذیبی کشمکش،بین الاقوامی حالات اور روحانی رشتوں کی گہرائی تک جا پہنچی۔پھر فرزانہ نیناں اور سعدیہ سیٹھی کے شہر نوٹنگھم میں سیدثبت الحسن کے درِ فیض کی زیارت کے موقع پر مختلف شعبہ جات کے لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا ،ان تمام نشستوں نے دل کو ایک عجیب سرشاری بخشی، محمد ساجد اور سجاد یوسف کی رفاقت نے ہر ملاقات کو مزید اپنائیت اور خلوص کی خوشبو سے مہکائے رکھا۔ بڑی دیر بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی آنکھوں میں ایک نیا حوصلہ اور اجالا نظر آیا، ایسا لگتا تھا جیسے حالیہ عالمی منظرنامے میں پاکستان کی کامیابیوں نے پردیس میں بسنے والوں کے دلوں کو نئی توانائی اور رجائیت سے بھر دیا ہے۔اس بار جو چیز سب سے نمایاں دکھائی دی، وہ تھی اوورسیز پاکستانیوں کی بدلتی ہوئی ترجیحات۔ وہ لوگ جو کبھی صرف ذاتی مسائل اور معاشی سہولتوں کے تذکرے تک محدود تھے، اجتماعی ذمہ داری اور قومی تشخص کے ساتھ جڑتے نظر آئے، گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو دیارِ غیر میں سیاسی جماعتوں کی کشمکش کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی وابستگیاں اکثر تفرقے، نفرت اور تعلقات کی دراڑ کا سبب بنتی ہیں،اصل وفاداری ریاست کے ساتھ ہونی چاہیے، نہ کہ جماعت یا کسی شخصیت سے ،کیونکہ ابھی تک ہم سب سیاسی شعور اور ہلڑ بازی میں فرق نہیں کر سکے،

سیاسی شعور ایک مثبت صفت ہے مگر اس شعور کا مقصد ہنگامہ آرائی کی بجائے دلیل سے بات کرنا ہونا چاہیے،پھر برطانیہ جیسی مہذب اور کثیرالثقافتی فضا میں خود کو الگ تھلگ رکھنے کے بجائے معاشرے کا فعال حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے پْل باندھنے چاہئیں، جب اظہارِ رائے کے مہذب ذرائع سوشل میڈیا، پریس اور قانونی پلیٹ فارمز کی صورت میں موجود ہیں تو پھر سڑکوں پر شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی سے کیا حاصل؟ اصل دانش یہ ہے کہ دلیل اور مکالمے کے ساتھ اپنی بات کہی اور منوائی جائے ، اپنے گھروں اور دکانوں کے اطراف صفائی کا خیال کیاجائے ،تاکہ پاکستانی کمیونٹی ایک باوقار، مہذب اور باشعور تصویر کے طور پر سامنے آئے۔

اوورسیز پاکستانی اپنے وطن کے عالمی وقار پر خوش اور مطمئن ہیں مگر ساتھ ہی وطن کے اندرونی مسائل پر گہری تشویش بھی رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی کامیابیاں اسی وقت بارآور ہو سکتی ہیں جب گھر کے چراغ بھی روشن ہوں،اگر اندرونِ ملک سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہے تو بیرونی فتوحات بھی ادھوری لگنے لگتی ہیں، ان کی فکرمندی ایک خاموش صدا کی مانند ہے جو وطن کے گوشے گوشے تک پہنچنے کی طلب رکھتی ہےبیرونِ ملک کے وقار کو اندرونِ ملک کے امن سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔یہی وہ بدلتا ہوا رویہ ہے جسے دیکھ کر دل کو روشن کل کی توانا امید بندھتی نظر آتی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں میں اب صرف ذاتی فائدے کوسوچنے کا رواج نہیں رہا، بلکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ کو بھی محسوس کرتے ہیں،یہ محض ایک وقتی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری ارتقا ہے۔ یہ احساس کہ ہر پاکستانی، خواہ دیس میں ہو یا پردیس میں، اپنے ملک کے وقار کا امین ہے، ایک نئی شعوری منزل کی نوید ہے۔اقبال نے کہا تھاکہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

یقیناً اگر یہ نئی ترجیحات اور مثبت رجحانات برقرار رہے تو اوورسیز پاکستانی پاکستان کی تقدیر کے ستارے بن سکتے ہیں، ان کی توانائی اور بصیرت وطن کیلئے روشنی کا چراغ ہے، اور شاید یہی چراغ مستقبل کے اندھیروں کو دور کر کے امن، وحدت اور ترقی کی راہیں منور کرے۔

تازہ ترین