• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھ سے محبت کرنے والے لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں، ان میں سے جن چند لوگوں کو مجھ سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ وہ بے حد جذباتی ہو جاتے ہیں ، میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ میرے احترام اور مجھ سے محبت کے اظہار میں وہ شرعی حدود کی خلاف ورزی نہ کریں مگر محبت اور عقیدت حدود میں کہاں رہتی ہےچنانچہ میں نے متعدد بار انہیں کہا کہ وہ سجدہ ریز ہونے کیلئے سامنے والی مسجد میں چلے جائیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان میں سے کچھ ایک تو مجھے دیکھتے ہی رونے لگتے ہیں اس پر مجھے حیرت نہیں ہوتی کیونکہ خود میں بھی جب آئینہ دیکھتا ہوں تو آبدیدہ ہو جاتا ہوں ۔ اسی طرح سجدہ ریزی کے خواہشمندوں کے بارے میں ، میں نے بعد میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ان میں سے دو کمر کی پر ابلم کی وجہ سے سیدھے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے، ان کی اس حالت سے مجھے خوش گمانی ہوئی کہ شاید وہ سجدہ ِ تعظیمی کرنا چاہتے ہیں ۔ باقیوں کے بارے میں پتہ چلا کہ بہت سے ملاقاتیوں نے مجھ پر جو جعلی نوٹ نچھاور کئے وہ انہیں اصلی سمجھ کر زمین پر لیٹ کر سمیٹنا چاہتے تھے۔ خود مجھے بھی اس حقیقت کا اس وقت اندازہ ہوا جب میں نے ڈھیر ساری خریداری کے بعد ان نوٹوں سے ادائیگی کی تو دکاندار نے پولیس بلالی اور بتایا کہ یہ شخص عید مبارک والے پانچ پانچ ہزار کے نوٹ چلانے کی کوشش کر رہا تھا ،تاہم یہ مسئلہ بہت آسانی سے حل ہو گیا جب میں نے پولیس کو کچھ اصلی نوٹ نذر کئے۔ اس کے باوجود متذکرہ سانحہ کے حوالے سے اپنے ان عقیدت مندوں کی محبت میں کوئی شک نہیں کے ممکن ہے کسی فراڈیئے بینکر نے یہ نوٹ انہیں تھما دیئے ہوں؟اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے حسن ِظن کی نعمت سے نوازا ہے ورنہ یار لوگ تو ہر معاملے میں بدگمانی سے کام لیتے ہیں جیسا کہ میں نے آغاز میں آپ کو بتایا کہ دنیا بھر میں اربوں کی تعداد میں میرے چاہنے والے موجود ہیں ، صرف پاکستان میں ان کی تعداد تیس کروڑ ہے گزشتہ روز میرا ایک عقیدت مند ملک کی معاشی صورتحال پر سخت پریشانی کا اظہار کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ہم لوگ ایک عرصے سے باہر سے مال امپورٹ کرتے ہیں اور ہماری ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے، اس نے تجویز پیش کی کہ اگر آپ اپنے عقیدت مند امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک میں ایکسپورٹ کرنا شروع کر دیں تو آپ سے محبت کرنیوالے اس نیک کام کیلئے فی کس لاکھوں روپیہ ادا کرنے کو تیار ہیں ، مجھے اسکی تجویز بہت معقول لگی اور میں نے سوچا کہ اگر میںاپنے 30کروڑ عقیدت مندوں میں سے صرف ایک کروڑ افراد بھی ایکسپورٹ کروں تو ہم آئی ایم ایف کی ساری شرائط پوری کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں مگر ان سب کو ویزا دلانے کیلئے ایک بہت بڑے نیٹ ورک کی ضرورت ہے مگر پھر میں نے سوچا کہ یہ ناممکن نہیںہے ، جب پاکستان کی محبت میں ایکسپورٹ ہونے کے خواہشمند میرے پاساپنے کاغذات جمع کرائیں گے تو اس کے بعد نیٹ ورک کے قیام میں کوئی مشکل نہیں ہوگی، چنانچہ کچھ سفارتخانوں کے اہلکاروں سے میری بات چیت شروع ہو چکی ہے مگر مجھے پتہ ہے کہ پاکستان کی محبت میں ایکسپورٹ ہونےکے خواہشمند افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی۔اب ایک چھوٹا سا مسئلہ در پیش ہو گا اور وہ یہ کہ جب میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کی ایکسپورٹ کرنے کیلئے فی کس کم از کم بیس لاکھ بھی وصول کروں تو یہ رقم کھربوں تک جاپہنچے گی اور ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے مجھے یہ رقم حکومتی خزانے میں جمع کرانا ہو گی مگر میں اِن شاء اللہ اس رقم کو تین گنا زیادہ کرنے کے بعد یہ کام کروں گا، حاصل شدہ رقم کو دو تین گنا زیادہ کرنے کیلئے میں یہ کھربوں روپے مختلف اسکیموں میں انویسٹ کروں گا جسکے نتیجے میں جو منافع ہوگا اس کی گنتی بھی مشکل ہو جائے گی تاہم اس میں ایک رسک بھی شامل ہے اور وہ یہ کہ ساری رقم خسارے کی صورت میں ڈوب بھی سکتی ہے۔ مجھے اس طرح کے کام کرنے والے ایک پرانے کھلاڑی نے یہ بات سمجھائی ہے چنانچہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ تاہم اس اقدام کے نتیجے میں میری نیک نیتی کی وجہ سے میرے نامہ ءاعمال میں ایک نیکی بھی لکھی جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد میری انویسٹمنٹ چار گنا زیادہ منافع بھی دینا شروع کر دے یہ بھی اُس کی مرضی ہے اور اس کی رضا کو قبول کرنا بھی نیکی تصور کی جاتی ہے، اس دوران میں اپنا نام بھی ایکسپورٹ ہونے والے محب الوطن پاکستانیوں کی فہرست میں شامل کر کے امریکہ کے کسی وِلا میں قیام پذیر ہوں گا جہاں میرے کروڑوں عقیدت مند پہلے سے موجود ہیں، یہ بات تو میں نے شروع میں آپ کو بتادی تھی کہ پوری دنیا میں میرے اربوں چاہنے والے موجود ہیں۔ویسے مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے ہاں بہت سے اعلیٰ درجے کے شاعر موجود ہیں ،بہت بڑے مزاح نگار اور ڈرامہ نویس بھی ہیں، عالم فاضل لوگ بھی موجود ہیں ممکن ہے ایک آدھ میرے جتنا خوبصورت بھی ہو کوئی اِکا دُکا ایسا بھی ہو جو بولتا ہو تو اس کے منہ سے پھول جھڑتے ہوں مگر یہ اس کی کرم نوازی ہے کہ میرے سامنے ان کی حیثیت زیرو سے زیادہ نہیں، ملک سے محبت اور پاکستانیوں کو ایکسپورٹ کر کے اربوں روپے جمع کر کے قومی خزانے میں جمع کروانے کی میری نیت سے بھی آگاہ ہو چکے ہیں لیکن اگر قدرت کو کچھ اور منظور ہوا تو اس کے سامنے ہم سب بے بس ہیں لیکن میں غرور نہیں کرتا کہ پاکستانیوں کے حوالے سے مجھ ایسے دردمند اور اربوں کھربوں روپے جمع کرنیوالے اور بھی ہوں گے۔ الحمدللہ اس حوالے سے وہ میرے قریب سے بھی نہیں گزرتے میرے اللہ مجھے معاف کر دینا اگر میں نے نادانستہ طور پر بھی اپنے بارے میں خودستائی سے کام لیا ہو، میرے عجز و انکساری کا تو یہ عالم ہے کہ میں خود کو ان لوگوں میں سے سمجھتا ہوں جنہیں اسفل السافلین قرار دیا گیا ہے اور جن کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ الحمد للہ میں اپنے عقیدت مندوں کی زبان سے جب سنتا ہوں کہ آپ بہت پہنچے ہوئے ہیں تو بھی اس پر یقین نہیں کرتا ، جب امریکہ پہنچ جاؤں گا تو اس وقت خود کو پہنچا ہوا سمجھوں گا فی الحال تو خاکی ہوں اور پاکی ہوں!

تازہ ترین