سفر کے دوران علم و آگہی کے کئی در خود بخود کھلنے لگتے ہیں۔یہ ایسا ذریعہ ہے جہاں سیکھنے کی جستجو کیلئے نہ ضخیم کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے، نہ طویل لیکچرز کی، بس آنکھیں بیدار، دل کھلا اور ذہن متجسس ہونا چاہیے۔راستے، چہرے، زبانیں، رسم و رواج بلکہ ہر منظر ایک سبق بن جاتا ہے۔مختلف رنگوں کے تجربات اور مشاہدات موتیوں کی طرح علم کی طالب جھولی میں گرتے رہتے ہیں اور انسان بے آواز سیکھتا چلا جاتا ہے۔جب میں اپنے چھوٹے بھائی محمد سجاد کے ساتھ لندن سے ویلز کی طرف اپنی بھتیجی ڈاکٹر ثنا رفیق کے پاس آ رہی تھی، تو سڑک کنارے کئی حیرتیں بورڈ تھامے کھڑی تھیں جیسے وہ مجھے صدیوں کی کہانی سنانے کی مشتاق ہوں۔ پچھلے پچیس سال سے یوکے آنا جانا رہتا ہے مگر زیادہ تر قیام لندن ، برمنگھم ، مانچسٹر یا گلا سکو تک محدود رہتا ہے۔اس بار پہلی بار ویلز آنے کا موقع میسر ہوا تو ہر منظر، ہر اشارہ اور ہر نئی معلومات نے ذہن میں ایک خوشگوار تازگی بھر دی۔یہ سفر صرف فاصلہ طے کرنے کا نہیں بلکہ دریافت اور سیکھنے کا تجربہ بھی بن گیا۔میں نے دیکھا موٹروے پر لگے ہر سائن بورڈ پر دو زبانوں میں رہنمائی درج تھی ،اوپر ایک اجنبی زبان جس کے حروف انگریزی سے مشابہ تھے اور نیچے انگریزی ترجمہ، یعنی اوپر لکھی زبان نمایاں حیثیت کی حامل تھی۔جب میں نے سجاد سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ ویلش زبان ہے اور ویلز میں رہنے والے بہت سے لوگ یہی زبان بولتے ہیں۔یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اپنی زبان و ثقافت سے محبت اور اس کا تحفظ یہاں کس خوبصورتی سے کیا جا رہا ہے۔
ویلز میں دو ہفتوں کے قیام کے دوران قدرتی مناظر نے دل و روح کو بے حد سرشار کیا۔یہاں کی فضا میں ایک عجیب سی سادگی، تازگی اور سکون رچا بسا محسوس ہوا۔خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں ہر طرف فطرت کے دلفریب رنگ، سبزہ، کھلے میدان، اور شفاف پانی کے چشمے دل موہ لینے والے تھے۔اگرچہ ویلز میں سال بھر بارش کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور پانی کی قلت کا کوئی مسئلہ نہیں، پھر بھی یہاں بارش اور چشموں کے پانی کو سلیقے سے ذخیرہ کر کے خوبصورت مصنوعی جھیلیں بنائی گئی ہیں۔یہ نہ صرف تفریح اور سیاحت کا ذریعہ ہیں بلکہ مچھلیوں کی افزائش کیلئے بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ویلز کی آبادی 3187000 ہے جو برطانیہ کی کل آبادی کا صرف 4.5فیصد ہے، جبکہ رقبہ 20779مربع کلومیٹر ہے۔ویلز کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے ، برطانوی تسلط سے قبل ویلز ایک آزاد خطہ تھا ۔قدیم دور سے کیلت ثقافت اس خطے میں غالب تھی، ویلش زبان کا ابتدائی وجود لوک بولی اور نظمِ شاعری کے ذریعے مستحکم ہوا۔رومی دور، اینگلو سیکسنس حملے، نورمین تسلط اور بعد ازاں انگریز بادشاہتوں کےاس خطے پر اثر کے باعث ویلش زبان پر دباؤ آیا۔
16ویں صدی کا یونین ایکٹ ویلز کو انگلش قانونی ساخت کے تحت لایا اور ویلش زبان کا استعمال سرکاری معاملات میں محدود تر ہوگیا19ویں صدی میں صنعتی انقلاب اور انگریزی زبان کی معاشی اہمیت نے ویلش زبان کو اتنا کمزور کردیا کہ اس کے مکمل معدوم ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ۔اس وقت زبان کی اہمیت سے روشناس لوگ متفکر اور متحرک ہوئے، 20ویں صدی کے وسط سے زبان کی بیداری کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں ، ان تحریکوں کے عوام اور حکومت پر دباؤ کے باعث 1993 میں Welsh Language Act منظور ہوا،ویلش زبان کے فروغ اور ترویج میں کئی ادیب، شاعر اور ثقافتی رہنماؤں نے اہم کردار ادا کیا خصوصا ڈائلن تھوماس ، رابرت ساؤر اور دیگر کلاسیکی شاعروں نے قدیم ویلش نظمیں اور گیت محفوظ کئے۔جدید دور میں متعدد ادیب، شاعر، دانشور اور زبان دان تخلیقی کتب، ترجمے اور تعلیمی مواد کے ذریعے زبان کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ،میڈیا، ٹی وی چینلز ،ریڈیو اور ڈیجیٹل وسائل نے نوجوان نسل کو ویلش زبان کےقریب لانے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ ویلش ایکٹ نے عوامی اداروں کو لازم قرار دیا کہ وہ ویلش زبان کا استعمال کریں اور انگریزی و ویلش دونوں کو برابر مقام دیں2011 کے بعد سے قانون میں ترمیم کے ذریعے ویلش کی سرکاری حیثیت مزید مستحکم ہوئی۔
2025 ءکے نئے قانون نے زبان کو تعلیمی شعبے میں فروغ دینے، بولنے والوں کی تعداد بڑھانے اور زبان کو عام زندگی کا حصہ بنانے کی حکمت عملی متعین کی ہے، یہاں کے لوگ دونوں زبانیں جانتے ہیں مگر اپنی زبان بولنے کو ترجیح دیتے ہیں ،وہ اپنی زبان، ثقافت اور زمین سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اس لئے ویلش زبان کا فروغ اور اس پر فخر، یہاں کے ثقافتی شعور کی عکاسی کرتا ہے۔برطانوی حکومت بھی شاباش کی مستحق ہے جس نے ویلز کے عوام کے مطالبات پر ویلش زبان کو تحفظ فراہم کیا ۔آج ویلز کی اپنی اسمبلی اور ضابطے ہیں ، وہ برطانوی بادشاہت کی چھتری تلے اپنی صدیوں پرانی روایات ، زبان اور ثقافت کے ساتھ شادمانی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور دنیا کو خاموش پیغام دے رہے ہیں کہ اصل سےجڑت قائم کرو اسی میں حسن اور بقا ہے۔