• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تو کئی بار بیان کرنے کی کوشش کرچکا ہوں کہ تحریک انصاف سیاسی کارکنوں کی جماعت نہیں بلکہ عاشقانِ عمران کا گروہ ہے۔مگر اب خیبرپختونخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ جناب سہیل آفریدی نے بھی بطور قائد ایوان اپنی پہلی تقریر میں یہ اعتراف کرلیا ہے۔ہمارے قبائلی پختونوں کے ہاں نہایت اعلیٰ ادبی ذوق پایا جاتا ہے اور انکی میزبانی کے دوران بارہا اس بات کا اِدراک ہوا مگر سہیل آفریدی نے اپنی گفتگو کا آغاز ایک بے وزن شعر سے کیا اور کہا

نہیں مروں گا اب کسی جنگ میں،یہ سوچ لیا

میں اب کی بار عشقِ عمران میں مارا جاؤں گا

سہیل آفریدی نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اس سے پہلے آپ نے وہ لوگ دیکھے ہونگے جو سیاست کیا کرتے تھے مگر ہم عاشق ہیں،عمران خان سے عشق کرتے ہیں۔اپنے قائد سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد انہوں نے واضح کیا کہ میں سب سے پہلے پاکستانی ہوں،پھر پختون اور قبائلی۔اگر پاکستانیت دیگر تمام وابستگیوں پر مقدم ہو تو پھر کیا گِلہ،مسئلہ تو یہی ہے کہ تحریک انصاف کے پیروکار مرشد کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔نومنتخب وزیراعلیٰ کی پہلی تقریر میں تحریک انصاف کے ہر رنگ کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔وہ یہ کہنا نہیں بھولے کہ 9مئی فالس فلیگ آپریشن تھا۔سہیل آفریدی نے فرمایا،میں محنت کرکے یہاں پہنچا ہوں ”پرچی“سے وزیراعلیٰ نہیں بنا۔ اپنے ممدوح مراد سعید کی طرح یقیناً انہوں نے ترقی کرنے کیلئے بہت محنت کی ہوگی مگر سچ یہی ہے کہ اڈیالہ جیل کے ایک قیدی کی پرچی سے وہ وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔اپنے ارادوں اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا عندیہ دیتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا میں احتجاجی سیاست کا چیمپئن ہوں۔اس سے قبل کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت سہیل آفریدی کہہ چکے تھے کہ عمران خان سسٹم کے باپ ہیں مگر وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا،عمران خان ہی ریاست ہے۔یہ فاشزم نہیں تو اور کیا ہے کہ پورا نظام فرد واحد کی منشاو مرضی کا غلام ہو۔جناب عمران خان خود کو بے تاج بادشاہ ثابت کرنے کیلئے ہی تو عثمان بزدار،علی امین اور سہیل آفریدی جیسوں کو متعارف کرواتے ہیں۔جناب عمران خان کی جدوجہد کا مرکز و محور یہی تو ہے کہ اپنی عظمت و برتری کا نقارہ سنایا جائے،خود کو ریاست کے طور پر متعارف کروایا جائے۔یہ باور کروایا جائے کہ ان کی ذات اقدس اس ملک اور نظام سمیت ہر شے سے برتر و افضل ہے۔اگر وہ نہیں تو پھرسب لاحاصل ہے انکی حکومت گرانے اور سیاست ختم کرنے سے بہتر ہے کہ اس ملک پر ایٹم بم گرادیا جائے۔خود پسندی، ہوس کی ناتمامی اور آرزو کی تشنہ کامی پیکر خاکی کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں غرقابی مقدر ہوجاتی ہے۔پانے کا خمار اور کھونے کا آزار انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔عبرت کے ہزاروں نشاں موجود ہیں،بڑے بڑوں کے نقارے خاموش ہوگئے،مگر شاید ہما رے ہاں ارباب سیاست نے تاریخ سے ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھنا۔

تحریک انصاف ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر ہمارےمتعفن سیاسی نظام میں خوشگوار ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکتی تھی مگرافسوس، اسے کبھی سیاسی جماعت ہی نہ بننے دیا گیا۔ عمران خان سیاسی قائد کے بجائے دیوتا کی مسند پر متمکن ہوگئے۔تحریک انصاف کو سیاسی جماعت کے بجائے ایک سیاسی ”کلٹ“اور گروہ میں تبدیل کردیا گیا۔عمران خان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان پر کامیاب جلسے کے بعد اپنے نظریاتی اور دیرینہ ساتھیوں پر انحصار کرنے کے بجائے سیاسی مفادات کے تحت آنیوالوں کو ٹکٹ دے دیئے تاکہ وہ جلد ازجلد عنان اقتدار سنبھال سکیں۔دوسری غلطی یہ تھی کہ اقتدار مل جانے کے بعد نیا پاکستان بنانے کے بجائے ساری توانائیاں نقش کہن مٹانے پر لگا دی گئیں یعنی اپنے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا۔عاجزی و انکساری کے بجائے انکی خودپسندی،نخوت و تکبر میں مزید اضافہ ہوگیا۔آخری غلطی یہ ہوئی کہ اقتدار سے محرومی کے بعد خان نے سب کچھ نیست و نابود کرنے کی ٹھان لی۔حکومت ختم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔اپنی اننگز کا انتظار کرنے کے بجائے وہ ہنگامہ آرائی کرکے کھیل سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باہر ہوگئے۔ سیاستدانوں کیلئے گرفتاری ہرگز اچنبھے کی بات نہیں مگر انہوں نے آتش گل سے چمن ہی جلا ڈالا۔

جب مورخ تحریک انصاف کے عروج و زوال کی روداد بیان کرئیگا تو نوک قلم ایک ہی جملے پر اٹک جائیگی کہ یہ تحریک دیوتا کی انا اور خودپسندی کی بھینٹ چڑھادی گئی۔آپ نے وہ قدیم یونانی کہانی تو پڑھی ہوگی جو ”نرگسیت“ سے منسوب کی جاتی ہے۔شہزادے”نارسیس“ نے ”ایکو“نامی پری کی محبت ٹھکرائی تو بددعا کے سبب اپنی ذات کااسیر ہوگیا،وہ خود ہی محب اور خود ہی محبوب ہوگیا۔وہ خود پرستی کا شکار ہوگیا،اسے اپنے عکس سے پیار ہوگیا۔ اسی حالت میں دریا کنارے اس کی موت واقع ہوگئی اور اس کی راکھ سے نرگس کا پھول کھلا۔مگر ہمارے ہاں تو عمران خان کا قد کاٹھ اور مقام و مرتبہ اس سے کہیں زیادہ بلند ہے۔وہ شہزادے یا بادشاہ نہیں آقا اور دیوتا کی مسند پر جلوہ افروز ہیں۔وہ اس سسٹم کے ان داتا نہیں بلکہ خود سسٹم اور ریاست ہیں۔ہمارے ہاں تو پہلے ہی یہ کشمکش چل رہی تھی کہ کچھ محکمے یا ادارے خود کو ریاست سمجھتے ہیں اور کئی بار یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دی جائیگی مگر اب ریاست کے ایک اور دعویدار سامنے آگئے ہیں تو کیا ہوگا؟ یا تو ریاست اس قیدی کے سامنے سرتسلیم خم کرلے یا پھر اسے جھکانے میں کامیاب ہو جائے، کوئی تیسری صورت یا درمیانی راستہ تو اب دکھائی نہیں دے رہا۔”عشق عمران“ نے کئی پروانے جلا ڈالے،دیکھئے اب اس نئے انتخاب سے عشاق کیا فیض پاتے ہیں۔

تازہ ترین