• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن میں گزشتہ سال اربوں روپے مالیت کے 80 ہزار فون چوری

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو 

کراچی (رفیق مانگٹ) لندن میں موبائل فون چوری کی صنعت بے نقاب، پولیس نے 2 ہزار فون اور ساڑھے 7 کروڑ روپے (2 لاکھ پاؤنڈز) برآمد کر لیے۔

ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب گودام سے ایک ہزار آئی فونز برآمد، پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ لندن فون چوری کا یورپی دارالحکومت بن گیا، ایک لاکھ سے زائد وارداتوں میں صرف 495 پر کارروائی، چوری شدہ فونز کی قیمت غیر ملکی منڈیوں میں 5 ہزار ڈالرز تک ہے۔ 

لندن پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال شہر میں 80 ہزار سے زائد موبائل فون چوری ہوئے، جن میں سے زیادہ تر غیر ممالک بھیجے جا رہے تھے۔ میٹروپولیٹن پولیس کی تحقیقات کے مطابق، یہ جرائم اب محض گلی محلوں کی واردات نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

پولیس نے گزشتہ ماہ شمالی لندن میں چھاپوں کی ایک سیریز کے دوران تقریباً 2 ہزار چوری شدہ فونز اور 7 کروڑ 49 لاکھ روپے (2 لاکھ پاؤنڈز ) نقدی برآمد کیے۔ 

یہ کارروائیاں ان دکانداروں اور درمیانی سطح کے خریداروں کے خلاف کی گئیں جو چوری شدہ فونز کو ہانگ کانگ، چین اور الجزائر جیسی منڈیوں میں بھیجنے والے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

یہ نیٹ ورک اس وقت بے نقاب ہوا جب گزشتہ دسمبر میں ایک خاتون نے اپنے آئی فون کی لوکیشن ایپ کے ذریعے ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب ایک گودام تک پہنچنے کا سراغ دیا۔ وہاں سے ہانگ کانگ روانہ ہونے والے کنٹینرز میں ایک ہزار چوری شدہ آئی فونز برآمد کیے گئے۔ 

سینئر ڈیٹیکٹو مارک گوئن کے مطابق یہ جرم کسی انفرادی چور کا کام نہیں بلکہ صنعتی پیمانے پر منظم کاروبار ہے۔ چوری شدہ فونز غیر ملکی منڈیوں میں 5 ہزار ڈالرز تک فروخت ہو سکتے ہیں۔

پولیس کے مطابق، جرائم کا نیٹ ورک تین درجوں پر مشتمل ہے ۔نچلی سطح پر وہ چور جو زیادہ تر ای-بائیکس پر سوار ہو کر فون چھینتے ہیں۔ درمیانی سطح پر دکاندار اور خریدار جو یہ فون خرید کر آگے بیچتے ہیں۔ اعلیٰ سطح پر وہ ایکسپورٹرز جو انہیں غیر ملکی منڈیوں میں بھیجتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق، 2023ء میں 64 ہزار فون چوری ہوئے تھے جبکہ 2024ء میں یہ تعداد بڑھ کر 80 ہزار تک پہنچ گئی۔ مارچ 2024ء سے فروری 2025ء کے دوران 106,000 فون چوری کے کیسز رپورٹ ہوئے لیکن صرف 495 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی ۔ یعنی ہر 200 کیسز میں صرف ایک میں کارروائی ہوئی۔ 

پولیس حکام کے مطابق، یہ جرم انتہائی منافع بخش اور کم خطرہ ہے۔ ایک چور ایک فون سے اوسطاً 300 پاؤنڈز کماتا ہے، جو کم از کم اجرت سے تین گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس کے لیے سب سے بڑا چیلنج پہچان اور گرفتاری ہے۔ 

ای-بائیکس پر سوار نقاب پوش چور تیزی سے حملہ کر کے فرار ہو جاتے ہیں اور مصروف سڑکوں پر ان کا پیچھا کرنا پیدل چلنے والوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ 

پچھلے مہینے کی کارروائیوں میں 40 ہزار پاؤنڈز نقدی اور پانچ چوری شدہ فون موقع پر برآمد ہوئے۔ دسمبر سے اب تک 4 ہزار آئی فونز پولیس کے قبضے میں آچکے ہیں جو جنوب مغربی لندن کے پٹنی اسٹور روم میں رکھے گئے ہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر لارنس شرمین کے الفاظ میں جب ایک فون کی قیمت ہزار پاؤنڈ ہو تو سڑک پر اسے ہاتھ میں پکڑ کر چلنا ایسے ہی ہے جیسے جیب سے ہزار پاؤنڈ نکال کر ہوا میں لہرانا۔

اہم خبریں سے مزید