• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظیم اذہان کی دانش تک رسائی کیلئے کتابیں فقط صفحات نہیں، بلکہ وقت کا آئینہ ہوتی ہیں جن میں ہم نہ صرف ماضی کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ اپنے حال کی سمت کا تعین بھی کر سکتے ہیں، کسی مہذب معاشرے کی فکری زرخیزی کا اندازہ اس کے مکالمے کے معیار سے لگایا جا سکتا ہے اور جب مکالمہ سطحیت کا شکار ہو جائے، تو دانش لفظوں سے رخصت ہو جاتی ہے۔ دانشِ گفتگو ،کا عنوان دیکھ کر ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا،کیا واقعی گفتگو میں اب بھی دانش باقی ہے؟ کیا فکری بلندی آج کی آوازوں میں کہیں سنائی دیتی ہے؟ جب شور ہی دلیل بن جائے اور بدتمیزی کو اظہار کی آزادی کا نام دیدیا جائے، تو ایسے ماحول میں اس کتاب کا پڑھنا یوں لگا جیسے ویرانے میں کسی چشمے کی روانی سے سامنا ہو گیا ہو۔ یہ کتاب محض تیس انٹرویوز یا ملاقاتوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ شخصی مرقعے ہیں۔ایسے فکری نگینے جو اپنی بصیرت، اصول پسندی اور گہرے مشاہدات کے ذریعے ایک بامعنی دنیا کا تعارف کراتے ہیں۔

جیسے ہی اس کتاب کا پہلا صفحہ کھلتا ہے تو ایک دریچہ بھی ماضی کی سمت ازخود وا ہو جاتا ہے۔ وہ نابغہ روزگار شخصیات، جو اب صرف یادوں میں باقی ہیں، ایک ایک کر کے دل و دماغ میں اترتی چلی جاتی ہیں۔کسے خبر تھی کہ 1961ءمیں معروف شاعر اثر صہبائی کے مشورے اور تعاون سے شروع کیا گیا انٹرویوز کا ایک خاموش سلسلہ، وقت کیساتھ ایک ایسی تاریخی دستاویز میں ڈھل جائیگا،جو محققین کیلئے فکر کے نئے دریچے وا کریگا اور نوجوان طالب علموں کے دل میں سچ کی جستجواور دانش کی طلب جگائے گا۔انٹرویوز کے مجموعے تو بہت سے شائع ہوتے رہتے ہیں، لیکن اردو ڈائجسٹ کی انفرادیت محض شخصیت نگاری میں نہیں، بلکہ مقصدیت اور فکری راست بازی میں ہے۔کتاب کے دیباچے پہلی کرن کے مطابق، یہ سلسلہ اس مدیر نے شروع کیا جسے سقراط کی طرح اپنی علمی کم مائیگی کا بھرپور شعور تھا اسلئے اسے معاشرے کے بلند مرتبہ مگر کھوکھلے افراد کی منافقت اور تصنع سے شدید گھبراہٹ تھی۔اسی لئے اس نے ایسے انسانوں کی تلاش کو مقصد بنایا جو نہ درآمد شدہ تھے نہ برآمدی مال، بلکہ اسی دھرتی سے جنم لینے والے دیسی سورج تھے جو اپنی روایات ،اقدار اور دانش کیساتھ طلوع ہوئے اور اپنی روشنی سب پر نچھاور کی۔ایسی باکمال شخصیات سے گہرے نپے تلے اور غیر روایتی سوالات ہماری عمومی صحافتی سطحیت سے بالکل ہٹ کر ہیں۔ یہاں نہ رسمی گفتگو ہے، نہ خوشامد بلکہ وہ مکالمہ ہے جو اصلاحِ معاشرہ اور خیر کے حصول کا ذریعہ بنے،جس سے قاری محض متاثر نہ ہو بلکہ متاثر ہو کر سوچنے پر مجبور اور عمل پر راغب ہو۔ان انٹرویوز میں آپ کو ادیب، شاعر، فلسفی، وکیل، منصف، سفیر، عالم دین، ماہر تعلیم، سیاستدان، صحافی اور مختلف شعبہ جات کے ایسے ماہرین نظر آئینگے جن میں علم، اخلاص اور خدمتِ خلق کا جذبہ مشترک قدر ہوگا۔یہ کتاب صرف شخصیات کی یادگار نہیں، بلکہ ایک عہد کا آئینہ بھی ہے جس میں ہم نہ صرف ماضی کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ اپنے آج کا محاسبہ بھی کر سکتے ہیں۔ جون 1961ء میں اردو ڈائجسٹ کے انٹرویوز کے سلسلے کا آغاز ایک نہایت قابلِ احترام اور علمی شخصیت جسٹس ایس اے رحمن سے ہوا۔ان سے کیے گئے سوالات کی ترتیب، گہرائی اور وسعت نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔اس انٹرویو نے انکی فکر کے جو گوشے مجھ پر وا کیے، وہ نہ صرف متاثر کن تھے بلکہ کئی اعتبار سے چشم کشا بھی۔ خصوصاً انکے ادب، ثقافت، علامہ اقبال، رقص و موسیقی، عورتوں کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت اور انسان کا ہر معاملے میں حد سے تجاوز نہ کرنے کے اصولی مؤقف نے متاثر کیا یہ وہ زاویے تھے جو عام طور پر منصفوں یا مذہبی پس منظر رکھنے والی شخصیات سے منسوب نہیں کیے جاتے۔اسی طرح جب میں نے دیگر شخصیات کے انٹرویوز پڑھنا شروع کئےجنہیں ہم عموماً کسی ایک نظریاتی خانے میں بند سمجھتے ہیں تو یہ تاثر بھی زائل ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک مکمل کتاب کی مانند ہوتا ہے۔ سرِورق پر لکھے گئے مختصر تعارف سے اس کے اندر کے فکری سمندر کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ انسان کا شعور ایک مسلسل بہنے والا دریا ہے، جو کسی ایک نظریے یا فریم میں قید نہیں ہو سکتا۔وہ اپنی سرحدوں سے باہر بھی بہتا ہے، اور ہر راہ سے اپنی آواز بلند کرتا ہے۔ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے ان نایاب 120 انٹرویوز کو چار خوبصورت جلدوںدانشِ گفتگو، تابشِ نمو، آتشِ آرزواور کاوشِ جستجو میں محفوظ کرنیکا اہتمام کیا گیا ہے۔ابھی میں نے صرف پہلی جلد کا مطالعہ مکمل کیا ہےاور یہ میری فکر کو سیراب کر گئی ہے۔سوچتی ہوں کہ جب چاروں جلدیں ختم کرونگی تو میری فکری امارت کا عالم کیسا ہوگا؟ یہ خیال ہی دل کو سرشار کرتا ہے۔

اس عظیم کام کیلئے الطاف حسن قریشی کے باادب بیٹے افنان حسن قریشی، پوتے ایقان حسن قریشی اور قلم فاؤنڈیشن کے محنتی رکن عبدالستار عاصم کو دل سے خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں، جنہوں نے آج کے شور زدہ، سطحی اور منتشر دور میں ایسی خالص، سچی اور دانشورانہ تحریروں کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا۔ وہ نسل جو اپنی اصل سے کٹی ہوئی ہے، مگر ان کتابوں کے ذریعے اپنے ماضی، اپنے ہیروز اور اپنی فکری بنیادوں سے دوبارہ جڑ سکتی ہے۔یہ صرف ماضی کی بازیافت نہیں، بلکہ ایک نقشِ راہ ہے کہ ہمیں کس طرح خود کو سنوارنا ہے اور اس ملک کو کس راہ پر لیکر جانا ہے۔ یہ انٹرویوز مطالعہ پاکستان کی اصل روح ہیں۔ انہیں ضرور پڑھئے اور خود کو تلاشنے کی کوشش کیجئے۔

تازہ ترین