ڈاکٹر نعمان نعیم
اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں، بلکہ دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے، جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا، اسے اسلام کے دامن رحمت میں پناہ ملی۔
اسلام نے جہاں اعلیٰ اخلاقیات کا حکم دیا، وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کردیے، تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہوسکے۔دین اسلام نے انسان ہونے کے اعتبار سے قیدیوں کے ساتھ بھی حتی الامکان حسنِ سلوک روا رکھنے کا درس دیا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے ہر انسان ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے، اس لئے اسے اپنے حقوق کے معاملے میں پوری آزادی ملنی چاہئے۔ البتہ انسان کبھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتا ہے، جو عام انسانی اجتماع کے لئے ضرر رساں ثابت ہوتی ہیں ایسے موقع پر عام انسانی مفادات کے تحفظ کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس شخص کی سرگرمیوں کو محدود کیاجائے، یا اس پر مکمل بندش عائد کردی جائے، اسی کے لئے قید کی ضرورت پڑتی ہے۔
رسولِ اکرمﷺ نے بنی قریظہ کے قیدیوں کے بارے میں صحابہ کرامؓ کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: انہیں خوش اسلوبی سے اور حسن سلوک سے قید کرو، انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ پلا ؤ اور تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو ۔(الموسوعۃ الفقھیۃ4: 198/)
صرف تحقیق حال کے لئے بعض ملزموں کو وقتی طور پر قید کا حکم فرمایا، مثلاً: ایک مرتبہ قبیلہ بنوغفار کے دو شخص رسول اکرمﷺ کے حضور پیش کیے گئے، ان پر دو اونٹوں کی چوری کا الزام تھا، آپﷺ نے ایک کو روک لیا اور دوسرے کو اونٹ تلاش کرنے کا حکم دیا، بالآخر وہ دوسرا شخص دونوں اونٹ لے کر دربار نبوت میں واپس ہوا اور پھر دونوں کی رہائی عمل میں آئی۔ (مصنف عبدالرزاق ۱۰/۲۱۶-۲۱۷)
عہد فاروقی سے اس کا آغاز ہوا اور ضرورت کے تحت قید خانے کا نظام رائج کیا گیا، حضرت عمر فاروق ؓکے حکم پر مکہ کے گورنر نافع بن عبدالحارث نے اس غرض سے چار ہزار درہم میں صفوان بن امیہ کا مکان خریدا، اسی طرح حضرت علیؓ نے کوفہ میں باقاعدہ قید خانہ قائم کیا۔ (المبسوط ۲۰/۸۹، الطرق الحکمیہ ۱۰۳، الموسوعۃ ۱۶/۳۱۶)
نیز حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے کوفہ میں اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓنے مکہ مکرمہ میں اپنے اپنے عہد حکومت میں قیدخانہ قائم فرمایا۔ (تفسیر خازن ۲/۷۱، زاد لمعاد ۲/۷۴، الموسوعۃ ۱۶/۲۸۶)پھر بعد کے ادوار میں تمام مسلم حکمرانوں نے اس نظام کو باقی رکھا،اور مسلم قاضیوں نے مختلف جرائم میں قید کی سزا تجویز فرمائی لیکن یہ سب محض وقتی اور ناگزیر ضرورت کے تحت گوارا کیا گیا، اسی لئے قید کے کسی مرحلے پر بھی انسانی احترام کو نظر انداز نہیں کیا گیا، اسلام نے قیدیوں کے ساتھ مراعات اور حسن سلوک کی تعلیم دی، اور ہرحال میں اس پہلو پر دھیان مرکوز رکھا کہ وہ بھی تمہاری طرح انسان ہیں، ان کے بھی ضروریات اور تقاضے ہیں اور وہ بھی جذبہ واحساس رکھتے ہیں، اور کل وہ بھی تمہاری طرح آزاد تھے، حالات زمانہ نے انہیں اس حال تک پہنچادیا ہے، اس لئے ان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اختیارکرو۔
غزوۂ بدر میں فتح کے بعد جنگی قیدی حضور اکرمﷺ کے سامنے پیش کیے گئے تو زبان نبوت سے جو جملہ صادر ہوا وہ قیدیوں اور کمزور طبقہ کے لیے نبوت کا سب سے بڑا عطیہ ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! اللہ نے آج تمہیں ان پر قدرت دی ہے اور کل یہ تمہارے بھائی تھے۔ (مجمع الزوائد۱/۸۷)
قرآن کریم میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ابرار اور مقربین کی صفت قرار دیاگیا: اور یہ لوگ پوری محبت و خلوص کے ساتھ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (سورۂ دہر:۸) رسول اکرمﷺ نے یہ ہدایت فرمائی: قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو۔(طبرانی )
غلام جیسے کمزور طبقہ کے بارے میں فرمایا: جو خود کھاتے ہو ان کوکھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو ان کو پہناؤ۔ (احمدوابوداؤد، مشکوٰۃ ۲۹۲) ان کی عزت نفس کا بھی پورا لحاظ فرمایا، اور ارشاد فرمایا: غلام اور باندی کہہ کر ان کو مت پکارو بلکہ اے میرے بیٹے اور ایے میری بیٹی کہہ کر آواز دو۔(مجمع الزوائد۶/۸۷)
انہی تعلیمات کا اثر تھا کہ عہد اوّل میں جن مسلمانوں کے پاس قیدی تھے وہ اوّل کھانا قیدیوں کو کھلاتے اور بعد میں خود کھاتے اور اگر کھانا نہ بچتا تو خود کھجور پر اکتفاء کرلیتے۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے حقیقی بھائی ابوعزیز بن عمر بھی ایک بار قید ہوکر آئے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے جس گھر میں تھا ان کا یہ حال تھا کہ صبح و شام جو تھوڑی بہت روٹی بنتی، وہ مجھے کھلا دیتے اور خود کھجور کھاتے، میں شرماتا اور ہر چند اصرار کرتاکہ روٹی آپ لوگ کھائیں، لیکن نہ مانتے اور یہ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ (مجمع الزوائد ۶/۸۶)
فقہائے اسلام نے پوری تفصیل کے ساتھ ان امور پر روشنی ڈالی ہے، مثلاً:قیدیوں کو ان کے مذہبی امور میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، وہ اپنے مذہب کے مطابق عبادت وغیرہ انجام دے سکیں گے، ان کے مذہب کے مطابق انہیں غذا فراہم کی جائے گی، فقہاء نے صراحت کی ہے کہ مسلم قیدیوں کو وضو اور نماز وغیرہ سے روکنا درست نہیں ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار ۵/۳۷۸، ۳۷۹)
اگر جمعہ اور عیدین کا انتظام قیدخانہ میں ہو، اور شرائط جمعہ بھی موجود ہوں تو قیدیوں کو قید خانہ ہی میں جمعہ و عیدین کی اجازت ہوگی، حنفیہ کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قیدیوں کے لیے جمعہ کی اجازت ہے، اور اگر نمازِ جمعہ کا انتظام نہ ہو، تو قیدی تنہا تنہا ظہر ادا کریں گے۔ (ہدایہ ۱/۶۳، المبسوط ۲/۳۶)
قیدیوں کی جسمانی ضروریات اور بنیادی راحت و آرام کا لحاظ رکھنا بھی لازم ہے، مثلاً: مناسب غذا اور پینے کا صاف ستھرا پانی فراہم کیا جائے گا، حفظان صحت کے لیے اگر ورزش و تفریح کی ضرورت ہوتو اس کی اجازت ہوگی، ایسی تنگ جگہوں میں قیدیوں کو رکھنا درست نہیں ہے، جہاں ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہو، یا جہاں کھڑا ہونا یا پاؤں پھیلاکر لیٹنا ممکن نہ ہو، جہاں گھٹن کا احساس ہو، یا ایسی جگہ پر رکھنا جہاں دھواں بھرا ہوا ہو، یا سخت گرم یا سخت ٹھنڈے مکان میں جہاں زندگی دشوار ہو، یا کھلے آسمان کے نیچے جہاں گرمی یا سردی سے جسم بیمار پڑجائے، ایسی جگہوں پر قیدیوں کو رکھنے کی اجازت نہیں ہے، فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی قیدی کو ایسے تنگ مقامات پر رکھا گیا، یا غذا اور پانی کا معقول انتظام نہیں کیا گیا، اور وہ مرگیا، تو اس کی دیت اس شخص کے ذمہ لازم ہے جس کی لاپروائی سے قیدی کا یہ انجام ہوا ہے، بلکہ بعض فقہاء نے تو قصاص کو واجب کیاہے۔ (فتاویٰ ہندیہ ۳/۴۱۴، الموسوعۃ ۱۶/۳۲۷)
طبّی سہولیات بھی قیدیوں کو فراہم کی جائیں گی، ان کی جسمانی صحت اور طبّی سہولیات کی طرف پوری توجہ دی جائے، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے باقاعدہ ایک فرمان کے ذریعے مملکت کے تمام افسروں کو اس کی طرف خصوصی طور پر توجہ دلائی تھی، آپ کے زمانے میں ڈاکٹروں کی خصوصی خدمات بیمار قیدیوں کے لیے حاصل کی گئی تھیں اور دوا علاج کا پورا نظام بنایاگیا تھا یہ طبیب ہر روز قیدخانہ پہنچ کر قیدیوں کا معائنہ کرتے اور علاج تجویز کرتے تھے۔ (حاشیہ ابن عابدین ۵/۳۷۸، فتاویٰ ہندیہ ۴/۴۱۸)
لہٰذا سزا کے طور پر ہو یا اعتراف جرم کے لیے درج ذیل کاروائیوں کی اجازت نہیں ہے: قیدیوں کو دھوپ میں کھڑا کرنا۔ ان کے سرپر تیل ڈالنا۔ داڑھی مونڈھنا ۔ان پر کتے، بچھو یا اور کوئی درندہ جانور چھوڑنا۔ (کتاب الخراج ۱۳۵، المغنی ۷/۶۴۱، تبصرۃ الحکام ۲/۱۴۷، الموسوعۃ ۱۶/۳۲۸) اس لیے کہ یہ خلاف شرع بھی ہے اور جسمانی نقصان کا باعث بھی۔ بھوکا پیاسا رکھنا۔
جسم کے کسی حصے کو آگ سے جلانا یا الیکٹرک شاٹ لگانا۔ پانی میں غوطے دینا۔ (فتح الباری ۶/۱۵۰) سخت ٹھنڈک میں برف کی سلوں پرڈال دینا۔ مسلسل جاگتے رہنے پر مجبور کرنا اوراس کے لیے اس کی جائے رہائش میں تیز روشنی یا تیز آواز کا انتظام کرنا۔ چہرے پر مارنا۔ گردن پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دینا ۔ زمین پر لٹاکر مارنا وغیرہ۔ (فتاویٰ ہندیہ ۳/۴۱۴،)
قیدیوں کو فرار سے بچنے کے لیے زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے، ان کو ہتھکڑی بھی پہنائی جاسکتی ہے۔ بیڑی بھی ڈالی جاسکتی ہے، جیسا کہ حضرت عمرؓکے سامنے ایک ملزم کو ہتھکڑی لگاکر لایا گیا۔ (مصنف عبدالرزاق ۱۰/۲۱۷)
نیز حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک ملزم کے بارے میں فرمایا (جس پر چوری کا الزام تھا اور وہ کہتا تھا کہ میں نے اسے خریدا ہے) اس کو قید خانہ میں مضبوط باندھ دو اور معاملے کی تحقیق تک نہ کھولو۔ (المحلی لابن حزم ۱۱/۱۳۱)لیکن ایسا وقتی طور پر کرنے کی اجازت ہوگی، ان چیزوں کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنا درست نہیں، اس لیے کہ ان حالتوں میں بنیادی ضروریات بھی پوری کرنی دشوار ہوجاتی ہے۔
اسلام میں حقوقِ انسانی اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا مکمل لحاظ رکھا گیا ہے، غیرانسانی یا ذلّت آمیز سلوک کی قطعاً گنجائش نہیں، آج کل دنیا کے مختلف ممالک میں قیدیوں کے ساتھ جو نارواسلوک کیا جاتا ہے، وہ نا مناسب، بلکہ ناجائز ہے، جیسے قیدیوں پر تشدد کرنا، تفتیش وتحقیق کے نام پر الٹا لٹکا دینا، ایسی جگہ قید کرنا، جہاں بیٹھنے، لیٹنے اور آرام کرنے کی گنجائش نہ ہو، بے لباس کرنا وغیرہ۔
ابو غریب جیل میں جو سزائیں دی جاتی ہیں۔ کون سادل ہے جو ان سزاؤں کی کیفیت سن کر تڑ پتا نہ ہو اور ان سزاؤں کی تصویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے نہ ہو تے ہوں، دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح اس شعبے میں بھی اسلا م نے عدل واحسان پر مبنی تعلیمات اور اصول پیش کیا ہے، اس سلسلے میں جنگِ بدر کے قیدیوں کے احوال پیش کیے جاسکتے ہیں۔
ایسے لوگ جو جنت میں جائیں گے، ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیاکہ وہ لوگ قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(سورۃ الدھر، ۸)’’اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو‘‘ قیدی سے مراد ظاہر ہے کہ وہ قید ی ہے جسے اصولِ شرعیہ کے مطابق قید میں رکھا گیا ہو خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان مجرم، چوں کہ مجر م قیدیوں کو کھانا کھلانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر کوئی شخص قیدیوں کو کھلاتا ہے تو گویا اسلامی بیتُ المال کی اعانت کرتا ہے، بالخصوص ابتدائے اسلام میں جب کہ بیت المال کا کوئی منظم نظام نہیں تھا، اس لیے صحابۂ کرامؓ میں قیدیوں کو تقسیم کر کے ان کے کھانے پینے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی جاتی تھی۔
اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ انسانی معاشرت اور اس کے اصولوں پر عمل کرنے کا قیدی کو پابند بنایا جائے، اس کے رویے کی اصلاح پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔ جب وہ خود قید سے باہر نکل کر عام انسانوں سے مثبت رویہ رکھے گا تو جواب میں اُسے بھی مثبت رویہّ ملے گا۔
قیدی کی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا۔ جیسے حسد، بغض، کینہ، مال کی محبت اور بےجا نفرت وغیرہ۔ قیدی کے اندربرے اخلاق یعنی بری عادتوں کو اس سے نکالنے کی کوشش کرنا جیسے جھوٹ، غیبت، بہتان تراشی اور جھوٹی گواہی وغیرہ۔ قیدی کے اندر اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
جیسے صبر، شکر، عفو و درگزر اوراحسان وغیرہ۔ ان میں خدمت خلق کے جذبات پیدا کرنا، تاکہ وہ جیل سے باہر نکل کر اسی خدمت کے جذبے کی وجہ سے معاشرے کا مفید فرد بن جائے۔ قیدی کو ایک نارمل انسان کی طرح آداب سکھانا ۔جیسے ملاقات کے آداب، محفل میں جانے اور بیٹھنے کے آداب وغیرہ۔
منفی جذبات سے بچنے کی تربیت دینا اور منفی جذبات میں آکر کسی بھی قسم کے جرم سے بچنے کی تربیت دینا۔ جیسے جذبۂ انتقام اور غصّے کے جذبات وغیرہ۔یہ تمام امور درحقیقت قیدیوں کی اصلاح اور کردار سازی کا موثر ذریعہ ہیں۔ جن پر عمل کرکے مجرمانہ ذہن رکھنے والے قیدیوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔