مولانا محمد عرفان اللہ اختر
اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نے جہاں عبادات اور عقائد پر زور دیا ہے، وہیں معاشرتی نظام کو بھی بڑی اہمیت دی ہے، خصوصاً خاندانی نظام کو انسانیت کی فلاح کی بنیاد قرار دیا ہے۔ خاندان ایک ایسی بنیادی اکائی ہے، جس پر معاشرہ قائم ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنہا زندگی گزارنے کے لیے پیدا نہیں کیا، بلکہ اسے ایک خاندانی، معاشرتی اور باہمی تعلقات سے بھرپور نظام عطا فرمایا ہے۔ انسانی زندگی کا آغاز بھی ماں باپ سے ہوتا ہے اور اس کا دائرہ بہن بھائیوں، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی، دادا، دادی، نانا، نانی اور دیگر رشتے داروں تک پھیلتا ہے۔ یہ تعلقات انسانی زندگی کے لیے ایک ایسی سایہ دار شاخ ہیں جو ہر موسم میں اس کا سہارا بنتی ہے۔
جب انسان اپنے اصلی رشتوں کو بھول کر سوشل میڈیا اور دنیاوی رنگینی کے عارضی تعلقات میں اُلجھ جائے، تو وہ محبت، ہمدردی، سچی دعاؤں اور حقیقی خیرخواہی سے محروم ہو جاتا ہے، اس لیے دین اسلام نے بار بار رشتے داروں سے جڑے رہنے، ان کے حقوق ادا کرنے اور صلۂ رحمی کو فرض کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔
قرآنِ کریم کی سورۃ النساء میں خاندانی رشتوں کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے تعلق بالارحام کو بنیادِ ایمان قرار دیا گیاہے۔ اس میں تقویٰ اورخوفِ خدا اختیار کرنے کے ساتھ رشتے داروں سے حسنِ سلوک کا بھی حکم دیا گیا، یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنا صرف سماجی جرم نہیں، شرعی جرم بھی ہے۔
دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ احسان و عدل میں رشتے داروں کو ترجیح دو ، یعنی: ’’اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور قرابت داروں کو (اُن کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ النحل: ۹۰)
یہ وہ مشہور آیت ہے جو جمعے کے خطبے میں اکثر پڑھی جاتی ہے، اور اس میں عدل و احسان کے بعد ذوی القربیٰ (قریبی رشتے داروں) کے ساتھ حسن سلوک کا خصوصی ذکر ہے۔
ایک اور جگہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’جو لوگ اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑتے ہیں، اور ان رشتوں کو کاٹتے ہیں جن کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں۔‘‘ (سورۃ الرعد: ۲۵)
نبی کریم ﷺ کی تعلیماتِ مبارکہ ہیں کہ صلہ رحمی رزق میں برکت اور عمر میں اضافے کا ذریعہ ہے:’’جو شخص چاہتا ہو کہ اس کا رزق بڑھایا جائے اور عمر میں برکت ہو، وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری شریف)’’رشتے داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم)’’رشتے دار پر خرچ کرنا دوہرا اجر رکھتا ہے، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔‘‘ (ترمذی شریف)
دینِ اسلام نے خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بہت سی تعلیمات دی ہیں، جن کی بنیاد محبت، ہمدردی، انصاف، صبر، اور حقوق و فرائض کی ادائیگی پر رکھی گئی ہے۔
اسلام میں نکاح کو عبادت اور سنت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اپنے میں سے ان لوگوں کا نکاح کرو جو بے نکاح ہوں اور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔‘‘ (سورۃالنور: ۳۲) نکاح صرف جسمانی ضرورت نہیں، بلکہ ایک مقدس عہد ہے جو خاندان کی بنیاد ڈالتا ہے۔
اسلام نے والدین کی خدمت اور اطاعت کو فرض قرار دیا، قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل: ۲۳)
اسی طرح دین اسلام نے والدین کو اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ (سورۃالتحریم: ۶)
آج کے دور میں سوشل میڈیا پر ہزاروں فرینڈز، فالوورز، لائکس، ری ایکشنز اور تبصروں کی بھرمار ہے، مگر یہ تعلقات عارضی، سطحی اور غیرمخلص ہوتے ہیں۔ دکھ سکھ میں نہ کوئی کام آتا ہے، نہ دل سے دعائیں دیتا ہے۔ یہ وقت اور توجہ کی چوری کرتے ہیں، خاندانی وقت کو برباد کرتے ہیں۔
کئی طلاقیں، خاندانی جھگڑے، نافرمانیاں اور رنجشیں صرف سوشل میڈیا کے حد سے زیادہ استعمال کا نتیجہ ہیں، جبکہ حقیقی خاندان دعاؤں کا خزانہ ہے، غمگسار اور مددگار ہوتا ہے۔ اولاد کی تربیت، بڑوں کا سایہ، اور چھوٹوں کی رونق ہے۔ صبر، برداشت، رواداری اور قربانی سکھاتا ہے۔
خاندانی تعلقات کی عظمت وبرکات بے شمار ہیں کہ خاندان انسان کے لیے محبت، سکون اور رحمت کا گہوارہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں نکاح( جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا ) کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔‘‘ (سورۃالروم :۲۱)
خاندانی نظام نسلِ انسانی کی بقا اور اس کی اخلاقی، دینی اور معاشرتی تربیت کا ذریعہ ہے۔ یہی نظام بچوں کو معاشرتی اقدار سکھاتا ہے، جب خاندان مضبوط ہو تو پورا معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔ ہر فرد کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہوتا ہے اور معاشرہ عدل و امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
اسلامی خاندانی نظام میں بزرگ، بیمار، اور محتاج افراد کو اکیلا نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ خاندان کا ہر فرد دوسرے کی مدد کرتا ہے، جس سے غربت اور فاقہ کشی میں کمی آتی ہے۔ بزرگوں کو معاشرے کا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا حق نہیں پہچانتا، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (ترمذی شریف)
دین اسلام سے ہمیں بھرپور عملی ہدایات ملتی ہیں کہ ہم روزانہ کچھ وقت خاندانی ملاقات، گفتگو یا حال احوال کے لیے مختص کریں، سوشل میڈیا کو محدود کریں، اصل زندگی میں لوگوں سے رابطہ رکھیں، ماں باپ کی خدمت، بہن بھائیوں کے ساتھ حسنِ سلوک، اور قریبی رشتے داروں کو تحفے دینا معمول بنائیں، گھریلو دعوتیں، عیادت، اور خوشی و غم میں شرکت خاندانی رشتوں کو مضبوط کرتی ہے اور اختلافات کو اَنا کی بجائے دین کی روشنی میں سلجھائیں۔
اللہ تعالیٰ نے خاندان کو ہمارے لیے پناہ گاہ، مددگار اور محبت کا سرچشمہ بنایا ہے۔ دین اسلام نے خاندان اور رشتے داروں کے حقوق کو فرض قرار دیا ہے اور ان سے غفلت کو ہلاکت کا باعث بتایا ہے۔
سوشل میڈیا اور دنیا کی مصنوعی چمک دمک میں کھو کر حقیقی رشتوں کو نہ بھلائیں، بلکہ انہیں وقت، توجہ اور دل سے جوڑ رکھیں، کیونکہ یہی تعلقات دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنیں گے۔
اے اللہ! ہمارے دلوں میں صلۂ رحمی، خاندانی محبت اور عاجزی پیدا فرما، ہمیں والدین، بہن بھائی، رشتے داروں کے ساتھ سچائی، وفا اور خیر خواہی عطا فرما۔ دکھاوے اور وقتی تعلقات سے بچا، اور ہمیں ہمیشہ حق، تعلق اور دین کے راستے پر قائم رکھ۔( آمین)