• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی معاشرے میں باہمی اخوت و اجتماعیت

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

کسی بھی ریاست کے قیام و استحکام کی سب اوّلین اور اہم ضرورت یہ ہے کہ اس مملکت کے تمام شہری آپس میں پیار محبت سے رہتے ہوں، زندگی کے معاشرتی مسائل و معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے جذبے سے سرشار ہوں۔ تمدنی اور سیاسی یگانگت کی پہلی سیڑھی افراد معاشرہ کا آپس میں متحدو متفق ہونا ہے۔ آج کی جدید اور ترقی یافتہ جمہوری و سیاسی حکومتوں نے اہل معاشرہ کے باہمی اتفاق و اتحاد کی اساس تو اب دریافت کی ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے اب سے پندرہ سو سال پہلے ہی انسانیت کو یہ سبق عملی طور پر سکھا دیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ متنوع مزاج اور متضاد رویوں کے حامل افراد کو باہمی اُلفت و محبّت اور اخوت کی لڑی میں پرو دینا، زندگی کا سب سے کٹھن مرحلہ اور دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ لیکن اللہ کی رحمت خاص، اسلامی تعلیمات کی زبردست طاقت و صلاحیت اور رحمۃلّلعالمین ﷺ کی تالیفِ قلب، بھر پور حکمت و فراست کے زیر اثر عرب کے بدوؤں کا ایسا تزکیہ و تربیت ہوئی کہ جو لوگ جانوروں کے پہلے اور بعد میں پانی پی لینے پر ایک دوسرے کا خون بہا دیا کرتے تھے، وہ رحمۃ لّلعالمین ﷺ کے زیر تربیت آتے ہی باہمی محبت و اخوت کے ایسے پیامبر بن گئے کہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے جان و مال قربان کرنے والے بن گئے۔ 

مدینے کے مسلمانوں کے درمیان یہ باہمی محبت و اخوت اس وقت اپنے نکتۂ عروج پر پہنچ گئی، جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کے درمیان ’’مواخات‘‘ قائم کی، مدینےکے تمام مسلمان شہریوں کے درمیان ’’اخوت‘‘ یعنی بھائی بھائی کا رشتہ قائم فرمایا۔

یہ دنیا کی معاشرتی تاریخ میں کسی معاشرے کے افراد کے درمیان اپنی نوعیت منفرد اور انوکھا واقعہ تھا۔ جس کی دوسری مثال نہ اس سے پہلے ملتی ہے نا اس کے بعد’’مواخات‘‘ کے معنی ہیں بھائی چارہ۔ قرآن و حدیث میں بھی ’’اخوّت‘‘ کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو بہت واضح اور تاکیدی انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ حجرات میں اسلامی معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی الفت اور اتحاد و یکجہتی کی افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ 

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے بھی ایمان والوں کے درمیان باہمی رشتۂ اخوت کو ان سنہری الفاظ میں اجاگر کیا۔ ’’ہر مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے بالکل ایک جسم کی مانند کہ جب اس کے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘ (بخاری و مسلم) معلوم ہوا کہ ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے باہمی اخو ّت پر مبنی ہوتا ہے۔

اگرچہ یہ نسبی یا خونی نہیں ہوتا اور میراث وغیرہ کی تقسیم کا حکم اس پر نافذ نہیں ہوتا، اس کے باوجود مومن کا مومن سے رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے، اس کی جان، مال، عزت و آبر و وغیرہ کی حفاظت اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی طرح کرے اور اس پر ظلم گویا خود اپنے اوپر ظلم تصور کرے، یہی ایمان کی کیفیت اور اس کا تقاضا ہے۔

اسلام نے امّتِ مسلمہ کو جسدِ واحد قرار دیا اور بتایا کہ ایک جسم کے مختلف اعضاء کا جس طرح باہمی ربط و تعلق ہوتا ہے کہ اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم کراہنے لگتا ہے، ٹھیک اسی طرح ایک ایمان والا خوا ہ وہ کسی بھی ملک کا ہو، اسے ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا ہو اور وہ مظلومیت و اذیت اور جبر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو اس کے درد کو پوری امّتِ مسلمہ محسوس کرے، اس پر ظلم کے خاتمے کے لئے حتیٰ الا مکان کوششیں کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مومنِ حقیقی کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ 

جس کے اندر یہ کیفیت نہ ہو وہ مومن نہیں۔ ان کا اتحاد اللہ اور رسول اللہﷺ پر ایمان اور محبت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ایمان والوں کے درمیان یہ رشتۂ اخوت کمالِ ایمان کے لئے ضروری ہے اور اس تعلق میں کوتاہی گویا ایما ن میں نقص کی علامت ہے۔ اس کی پاس داری کے لئے ضروری ہے کہ ایک مسلمان اپنے لئے جس چیز کو پسند کرتا ہے، وہی چیز وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرے۔

یہ قیامت تک ایمان کی وہ کسوٹی یا معیار ہے جو اللہ کے رسول ﷺ نے امّتِ مسلمہ اور تمام ایمان والوں کے ایمان کی صحت کے لئے مقرر کردیا، نبی اکرم ﷺ نےفرمایا ’’تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنے (مومن) بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے، جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ) 

اس حدیث مبارکہ میں معاشرے کی اصلاح و فلاح کے لئے ایک جامع اصول وضع کیا گیا ہے، وہ یہ کہ ہرمومن کے اندر اپنی بہتری اور بھلائی کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلمانوں کی بھی بھلائی اور خیر خواہی کا ویسا ہی جذبہ ہونا چاہیے، جیسا کہ اپنی ذات کے لئے ہے۔

رسول اللہ ﷺ اپنے نبوی تدبر، بصیرت ،فراست اور حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمگیر نوعیت کا ایک عملی قدم یہ اٹھایا کہ مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا نظام قائم فرمایا۔ مدینہ میں جس اسلامی معاشرے کی بنیاد رسول اللہ ﷺنے پہلی سرکاری عمارت مسجد قائم کرکے کی تھی جو کہ پہلا تاسیسی اقدام تھااور جس سے مسلم معاشرہ قائم ہوا۔

جس طرح اس پہلی مسجد کی بنیادوں میں گارے مٹی اور پتھروں سے اسلام کی ایک مرکزی عظیم الشان رفعت کی حامل عمارت تعمیر ہو گئی، بعینہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کو بھائی چارے، محبت والفت کی ایک لڑی میں پرو کرمثالی اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور تنظیم فر مائی، صحابۂ کرام ؓ کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کا پیدا کردہ اخو ّت کا یہ جذبہ اس قدر مضبوط اور اثر پزپر تھا کہ جس کی وجہ سے یہ تمام اہل ایمان ایک جان دو قالب اور" جسد واحد "کیـ " طبعی وجود" میں ڈھل گئے۔ بھائی چارگی یا مواخات کا یہ عملی اقدام اپنی معاشرتی اہمیت اور معاشی افادیت میں کہیں زیادہ موثر تھا۔

مواخات کے اقدام یا اخوت کا رشتہ قائم کر کے رسول اللہ ﷺنے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنایا، تاکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں اورہجرت کے بعد مشکلات میں ان کا ساتھ دے سکیں۔ 

رشتۂ مواخات قائم کرنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد مسلم معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی محبت و الفت کو پروان چڑھانا اور دلوں میں جذبہ ایثا رو ہمدردی کو پیدا کرنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا اقدام مواخات اپنے نتائج واثرات کے اعتبار سے تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھا ہوا ایک غیر معمولی کارنامہ کے طور یاد رکھا جائے گا۔

آج امّتِ مسلمہ نے اخوت کا سبق فراموش کر دیا ہے اور دیگر اقوام کی طرح مفاد پرست اور خود غرض ہو گئی ہے۔ ہمیں دوسروں کا کوئی خیال نہیں رہتا، حتیٰ کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے حقوق تک سے بھی نا آشنا ہو کر بے حسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسلام اخوّت سے ماوراء اس فکر و عمل کو صرف برا ہی تصور نہیں کرتا، بلکہ اسے ایمان میں نقص، خرابی اور کمزوری کی علامت بتاتا اور کمالِ ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ 

اگر آج بھی امّتِ مسلمہ اس ایک اصول کو اپنائے کہ ہمیں اسلامی اخوت کو برقرار رکھنا ہے، کسی صورت میں اسے وہ دیمک نہ لگے جو ہمارے اخوّت پر مبنی تعلقات کو کھوکھلا کردے، تو اس کے لئے ہمیں اپنے درمیان سے بے حسی، نااتفاقی، غیبت، جھوٹ، دھوکا دہی اور حسد جیسی سفلی و رذیل عادتوں اور رکیک جذبات سے گریز اور اجتناب کرنا ہوگا ۔ کسی کو اپنے سے کم تر سمجھنا ترک کرنا ہوگا۔ اپنے بھائیوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا اور اپنی ضرورت پر ان کی ضرورت کو ترجیح دینا ہوگا۔

عالم اسلام کی سطح پر اس وقت مسلمانوں کی حالتِ زار خصوصاًفلسطین اور غزہ کے مسلمانوںکی ابترحالت کو دیکھیں تو ہمیں امّت میں اخوت کا جذبہ کار فرما نظر نہیں آتا۔ ہر چند عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل اور عدل و انصاف کے قیام کی جاری کوششیں اور مظاہرے خوش آئند ہیں، مگر ہم ذرا اپنا جائزہ لیں تو ہمیں نہیں لگتا کہ آج مسلمانوں میں باہمی اخوت و محبت کا رشتہ اور ربط و تعلق باقی رہ گیا ہے۔ 

کیا اس المیے پر غور و خوض ضروری نہیں؟ آج ہمارے درمیان ایک دوسرے کے لیےخیر خواہی کا جذبہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے، ملکی و قومی اور عالمی سطح پر مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ کٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور ان کا باہمی رشتۂ اخوت کمزور اور ٹوٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کیا یہ صورتحال ہمارے لئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟

مسلم معاشروں میں اس وقت جو بے چینی ، افراتفری ، انتشار بر پا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے در میان گویا اخو ّت کا جذبہ ختم ہو گیا اور دو ر جدید میں مسلم معاشروں کو "مواخات" کی بنیاد پر استوار نہیں کیا گیا، عصر حاضر میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ جدید مسلم معاشروں میں باہمی اتحاد و یگانگت، اخوت و اجتماعیت اور رشتۂ مواخات کےنبویؐ اصول کو فروغ دیا جائے۔

اقراء سے مزید