اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس اہلکاروں کے بظاہر اغواء، زبردستی گھروں میں داخلے، ڈکیتی اور جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث ہونے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
عدالتِ عالیہ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ڈائریکٹر کرائمز ایف آئی اے پولیس اہلکاروں کے اغواء میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیں۔
عدالت نے ایس ایچ او تھانہ ترنول اور تفتیشی افسر کے طرزِ عمل کی وضاحت کے لیے آئی جی اسلام آباد پولیس 28 اکتوبر کو طلب کر لیا اور ایس پی سی آئی اے کو حکم دیا کہ وہ لاہور سے پنجاب پولیس کے ہاتھوں فیملی کے مبینہ اغواء میں اپنے کنڈکٹ کے حوالے سے وضاحت کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محمد وقاص کی مقدمے کے اخراج کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر کرائمز ایف آئی اے پولیس اہلکاروں کے اغواء میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیں، عدالتی فیصلے کی کاپی ڈی جی ایف آئی اے کو بھجوائی جائے تاکہ وہ مناسب احکامات جاری کریں۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خاتون ثناء سہیل اور اس کے 3 بچوں کے اغواء کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق پنجاب پولیس کی مدد سے 17 ستمبر 2025ء کی صبح خاتون، بچوں اور 4 گاڑیوں کو تحویل میں لے کر بعد میں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ خاتون کو 20 ستمبر کو درج مقدمے میں رقم، سونے اور اسلحے کی برآمدگی ظاہر کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔
عدالتی تحریری حکم نامے کے مطابق مجسٹریٹ ان ماں اور بچوں سے متعلق حساس کیس سن رہے تھے جنہیں مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے اغواء کیا، تفتیشی افسر مقدمۂ اندراج سے قبل خاتون کو اغواء کرنے کے واقعے پر کوئی بھی وضاحت دینے میں ناکام رہا، ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ نے بچوں کو چائلڈ کسٹڈی یونٹ اور والدہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوایا، پولیس اور ماتحت عدلیہ کا غیر ذمے دارانہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں خواتین اور بچوں کے بنیادی حقوق کی کوئی فکر نہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ ممبر انسپکشن ٹیم خاتون کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے والے مجسٹریٹ یاسر چوہدری سے بھی وضاحت طلب کریں۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی بیلف نے سی آئی اے سینٹر اسلام آباد میں ان گاڑیوں کی موجودگی کی رپورٹ دی جو لاہور سے تحویل میں لی گئی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نام ےمیں کہا گیا ہے کہ گاڑیوں کی ٹریکنگ آئی ڈی سے گاڑیوں کی لاہور واقعے سے اسلام آباد میں گاڑیوں کے پارک ہونے تک کا روٹ واضح ہے، گاڑیوں کی ٹریکنگ آئی ڈی سے ایس ایچ او ترنول کے پولیس مقابلے کے دعوے کی بھی نفی ہوتی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ایس پی سی آئی سینٹر اسلام آباد پیش ہو کر رپورٹ دیں کہ گاڑیاں کیسے قبضہ میں لی گئیں، ایس پی سی آئی اے لاہور سے پنجاب پولیس کے ہاتھوں فیملی کے مبینہ اغواء میں اپنے کنڈکٹ کے حوالے سے بھی وضاحت کریں۔
عدالتِ عالیہ میں کیس کی مزید سماعت 28 اکتوبر کو ہو گی۔