• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں انسانی و جمہوری قدروں کی پامالی میں ہمارے سیاست دانوں کا منفی رویہ زیادہ قصوروار ہے کیونکہ ان دونوں کی ترقی و ترویج ان کی ذمہ داری ، مقصد اور ترجیح ہونا چاہیے تھی۔ بلاشبہ سب جماعتوں میں نظریاتی سیاست دان موجود رہے ہیں جو اصولوں کی پاسداری کو مقدم رکھتے ہیں، لیکن قیادت کے وقتی مفادات کی بنیاد پر فیصلوں کے رحجان نے ان کی سوچ کو نظر انداز کرکے جو فیصلے کئے وہ جمہوریت، انسانی وقار اور سیاسی اخلاقیات کو روندتے رہے۔کیسا ظلم ہے کہ جن سیاست دانوں نے جمہوریت کیلئے قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں ، وہی اقتدار کی ہوس میں، مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے آمرانہ قوتوں کےسہولت کار بنے۔ اس طرز عمل نے بار بار جمہوری نظام کو کمزور اور غیرجمہوری قوتوں کو مضبوط کیا ہے۔ایسے ماحول میں فواد چوہدری جیسے لبرل سیاست دان کی موجودگی باعثِ اطمینان ہے، جو پوائنٹ اسکورنگ سے ہٹ کر دلیل، مکالمے اور انسانی قدروں کی بات کرتا ہے۔ اس کا مؤقف ہمیشہ قومی مفاد، آئین اور سماجی قدروں کے ساتھ جڑا نظر آتا ہے، جو آج کی سیاست میں ایک نایاب وصف بنتا جا رہا ہے۔جمہوریت کا رونا رونے اور ہر ادارے کو اْس کے آئینی دائرہ اختیار میں رکھنے کا مطالبہ کرنے سے پہلے سیاست دانوں کو اپنا احتساب کرتے ہوئے دو بنیادی اصولوں پر غیرمشروط کمٹمنٹ دینی چاہیے کہ وہ جمہوری قدروں کے تحفظ اور فروغ کے لیے ہر حال میں کھڑے رہیں گے، چاہے اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں۔دوسرا انتہا پسندی کے خلاف ہمیشہ ایک واضح، دوٹوک اور مثبت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی مصلحت ،مفاہمت اور بغض کا شکار نہیں ہوں گے۔جب تک سیاست دان اپنے کردار اور بیانیے میں یہ دو بنیادی اخلاقی اصول شامل نہیں کرتے، اس وقت تک جمہوریت صرف ایک نعرہ اور اداروں کی حدود کی بات ایک موقع پرستانہ مطالبہ ہی رہے گی۔پچھلے چند سال سے ہماری سیاست میں ایسے افراد کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے جنہیں نہ جمہوری قدروں سے کوئی سروکار ہے، نہ عوامی خدمت کا جذبہ ان کے دل میں موجود ہے۔ یہ لوگ صرف ذاتی نمود و نمائش اور مفادات کے حصول کے لیے سیاست میں آتے ہیں?۔پیسہ لگا کرپیسہ کمانے کو سیاست کا مقصد بنانے والوں کے نہ کوئی اصول ہوتے ہیں، نہ واضح ترجیحات،اور نہ ہی کسی نظریے یا جماعت سے حقیقی وابستگی۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حالات و واقعات کے جبر سےپارٹیاں بدلنے والے موقع پرست نہیں ہوتے بلکہ سیاست کو کاروبار سمجھنے والے سطحی سوچ کے مالک موقع پرست ہوتے ہیں ،جن کی کارکردگی کا خمیازہ پورے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے۔اس سال وطن عزیز اندرونی و بیرونی چیلنجز اور یلغاروں کی زد میں رہا ، حکومتی وزرااور مشیران تو ریاستی موقف کی حفاظت کرتے رہے مگر بہت سے حب الوطنی کے دعویٰ دار حکومت کی مخالفت میں دشمن کے بیانیے کو تقویت دیتے نظر آئے۔ اس دوران اپوزیشن کی صفوں میں صرف ایک سیاستدان فواد چوہدری نظر آیا جس نے کھل کر ریاستی اداروں کی حمایت اور معاشرتی اصلاحات کیلئے کیے گئے اقدامات کی تائید کی اور سرحد پار بیٹھے دشمن کے پروپیگنڈے کو دلیل اور شواہد سے جھٹلایا۔فواد چوہدری کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ انتہا پسندی جیسے حساس موضوعات پر کسی جماعتی مصلحت یا پوائنٹ اسکورنگ کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کے الفاظ میں ان کا نظریہ اور قومی فکر بولتی ہے۔ وہ اختلافات کے باوجود حکمران جماعت کی مخالفت میں اتنے اندھے نہیں ہوتے کہ حق کو باطل اور زہر کو تریاق کہہ دیں بلکہ عوامی منصوبوں کی حمایت کرتے ہیں۔مریم نواز کی جانب سے انتہا پسندی کے خلاف جو جرات مندانہ اقدامات کیے گئے ہیں، ان کی بازگشت نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی سنائی دے رہی ہے۔ ترقیاتی منصوبے ہر سیاستدان کی اولیت ہوتے ہیں، لیکن اصل قیادت وہی ہے جو قوم کی بقا، امن، اور سماجی اقدار کے تحفظ کو ترجیح دیتی ہے۔فواد چوہدری نے جس صاف گوئی سے مریم نواز کے انتہا پسندی کے خلاف اقدامات اور ریاستی عملداری کے فروغ کی حمایت کی، وہی روش ہمیں دیگر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سے بھی درکار ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں آج تک کوئی بھی فرد مذہبی چورن بیچ کر وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی کرسی تک نہیں پہنچ سکا۔ انھیں جو چند نشستیں ملتی ہیں وہ بھی اکثر دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک یا سیاسی قربانیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔لہٰذا امن، برداشت اور ریاستی رٹ کے تحفظ کیلئے ہمیں حکومت کے مثبت اقدامات کا ساتھ دینا چاہیے۔فواد چوہدری کی پوری ٹویٹر تاریخ پڑھ لیں، گرم سرد موسموں میں بھی انتہاپسندی کے خلاف اور ملکی بقا کے حق میں اس کے نظریات یکساں ہیں۔ اْس نے سیاست دانوں کیلئے ایک معیار سیٹ کر دیا ہے کہ تنقید ضرور کریں، لیکن جہاں بات ملک کے اجتماعی مفاد، بقا اور معاشرتی ہم آہنگی کی ہو، وہاں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔فواد نے اپنے سچے نظریات کی عملی تعبیر دیکھنے کیلئے کئی جماعتوں سے امید باندھی مگر اندر خانے سب میں ایک ہی عالم تھا۔ ملکی بقا، نظریاتی اساس، جمہوری دانش اور گفتگو کا فن رکھنے والے فواد کو اس کی جماعت نے آجکل بھی پچھلی سیٹوں پر بٹھایا ہوا ہے اور سطحی سوچ والوں کی اجارہ داری ہے۔ دیکھیں کب اسے اپنے نظریات کی روشنی میںخدمت کا حقیقی موقع میسر آتا ہے۔

تازہ ترین