• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانہ ہم نے وہ بھی دیکھا تھا جب کچھ کہنے ، کچھ سننے اور کچھ سنانے پر آپ کی کھال کھینچ دی جاتی تھی ۔ خدارا اب مجھ سے یہ مت پوچھئے گا کہ اس بھیانک دور کو کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟ تب ہمارے حکمران کون تھے ؟ حکمرانوں کے وزیر اور مشیر کون ہوتے تھے؟ عدل وانصاف کس کے زورِ بازو میں ہوتا تھا؟آپ خود سیانے اور عقل مند ہیں۔ آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں اس بھیانک دور کا دور بتانے سے کیوں اجتناب کررہاہوں۔ یہاں پر ایک بات میں آپ کو وثوق سے بتادوں۔ ایک ایسا ہیبت ناک دور جس میں کچھ کہنے ، کچھ لکھنے ، کچھ سننے اور کچھ سنانے پر کھال کھینچی جاتی ہے۔ اپنی ہیبت میں لازوال ہوتا ہے ایسا بھیانک دور دائمی اور لازوال ہوتاہے ۔ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اپنی کھال کھینچوانے کے بعد ہم مرکھپ جاتے ہیں مگر بھیانک دور کسی نہ کسی صورت شکل، رنگ و روپ میں قائم اور دائم رہتا ہے ۔ کبھی ظاہر اور کبھی غائب ، کبھی پوشیدہ ، کبھی خفیف، آپ کو پتہ تب چلتا ہے۔ جب آپ کی کھال کھنچ جاتی ہے۔

عقوبت خانے ٹارچر کے تمام جدید ترین آلات اور طریقہ کار کے روح فنا کردینے والے حربوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ آپ کو رات رات بھر سونے نہیں دیتے۔ کبھی یخ بستہ اور کبھی کھولتا ہوا پانی آپ کے سرپر انڈیل کر آپ کو جگائے رکھا جاتا ہے۔ آپ کو سونے نہیں دیا جاتا ہے۔ امپورٹڈ آلات کی مدد سے آپ کے ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن نوچ نوچ کر نکالے جاتے ہیں آپ کی انگلیاں توڑنے کی حدتک مروڑ ی جاتی ہیں۔ قید تنہائی میں رکھ کر آپ کی کال کوٹھڑی میں سانپ ، بچھو اور چوہے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ وقت سے محروم کرنے کے لئے آپ کو لگاتار تاریکی میں رکھا جاتا ہے۔ آپ بھول جاتےہیں کہ آپ دن میں یارات میں سانس لے رہےہیں آپ کو ایسی بھیانک ڈنڈا بیڑیوں میں جکڑاجاتا ہے کہ آپ نہ بیٹھنے اور نہ لیٹنے کے قابل رہتے ہیں آپ صرف کھڑے رہنے کے قابل رہتے ہیں۔ آپ کی کال کوٹھڑی کی چھت اسقدر جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ کہ آپ لاکھ چاہنے کے باوجود سیدھے کھڑے ہو نہیں سکتے۔ ایجاد کرنیوالوں نے ہمارے عقوبت خانوں  میں ٹارچر کے ایسے ایسے روح فنا کردینے والے طریقہ کار ایجاد کیے ہیں کہ ان کا ذکر تک توہین انسانیت ہے۔ اذیت ناک طریقوں میں سب سے زیادہ ایذا رسا نہ ٹارچر انسان کے جسم سے اس کی کھال کھینچ کر اتارنا ہے۔ ٹارچر سے گزرنے والے آدھے سے زیادہ لوگ مرکھپ جاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنی پہچان ، اپنی شناخت ، اپنا نام تک بھول بیٹھتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہوسکتی ہےکہ ایذا رسانی کے دوران ڈاکٹر صاحبان موقع پر موجود ہوتے ہیں اور وحشی درندوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ ٹارچر سے گزرنے والا شخص اور کتنا عذاب برداشت کرسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق ایک بے بس کو بدترین عذاب سے گزاراجاتا ہے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اسقدر بھیانک دور میں بولنے والے سننے سنانے والے قصہ کہانیاں بیان کرنے والے کیا کرتےہیں؟

وہ چپ سادھ لیتے ہیں۔ وہ بولنا، سننا، سنانا بھول جاتے ہیں۔ اپنی کھال بچانے کے لئے وہ کسی دوسرے جانور کی کھال خرید کر پہن لیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مختلف جانوروں کی کھالوں کی طلب، مانگ، ڈیمانڈ اسقدر بڑھ جاتی ہےکہ پنساری اپنی دکان بند کرنے کے بعد کھالیں بیچنے کا کاروبار شروع کردیتے ہیں۔ ایسے میں آلو پیاز کم بکتے ہیں اور جانوروں کی کھالیں زیادہ بکتی ہیں مجھے کوئی جانتا پہچانتا نہیں ہے۔ مگر پھر بھی احتیاطاً میں نے کچھ جانوروں کی کھال خرید لی ہے۔ کیا کروں کہ میں منہ پھٹ ہوں۔ ڈرتاہوں کہ بکواس کرتے کرتے کسی روز دھرلیا نہ جاؤں۔ مونگ مسور کی دال کھانے والا میں کھال کھنچوانے کی بات تو دور کی بات ہے،میں کال کوٹھڑی کے گھپ اندھیروں میں پانچ منٹ اپنا حوش و حواس قائم نہیں رکھ سکتا۔ آپ ذرا سوچ کر تو دیکھیں۔ آپ کال کوٹھڑی میں بند ہیں۔ گھپ اندھیرا ہے۔ کال کوٹھڑی میں بچھو اور سانپ رینگ رہے ہیں ۔ کیسا محسوس کریں گے آپ ؟

ہوسکتا ہے آج کا قصہ پڑھنے کے بعد آپ بھی احتیاطاََ کسی حلیم ، نرم مزاج اور سیدھے سادہ جانور کی کھال خرید نے نکل پڑیں۔ آپ میرے وارڈ روب میں موجود کچھ جانوروں کی کھالوں کا ذکر سن لیجئے۔ میرے پاس ایک کھال سندھی بکرے کی ہے۔ سندھی بکرا ہر دور میں چوہدری، سردار سائیں ،پیر سائیں اور وڈیرا سائیں کے یہاں قربان ہوچکا ہے۔ اس کے کان بے انتہا لمبے ہوتے ہیں۔ ڈھیلا ڈھالا۔ چال میں متوالا آپ سندھی بکرے کی کھال پہن لیں۔ آپ خوشی خوشی قربان ہوتے رہیں گے۔ سجی بنتے رہیں گے ، مگر عقوبت خانوں کے ٹارچر سے بچ جائیں گے۔ اندھا بھی بکرے کو ہاتھ لگا کر بتا سکتا ہےکہ یہ ایک سندھی بکرا ہے اور سکھر والے پل پر ہوجمالو گاتے ہوئے ناچتا پھرتا ہے۔ ایک دم بے ضرر ہے۔ میرے پاس ایک کھال خرگوش کی ہے۔ بڑاہی مسکین جانور ہوتا ہے۔ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

مگر سب کھالوں میں سب سے کمال کی کھال میرے پاس گیدڑ کی کھال ہے۔ آپ جس قدر ڈرپوک ہونگے ، دنیا اسی قدر آپ کو پسند کرے گی۔ آپ سرکاری خرچ پر دنیا کی سیر کرتے پھریں گے۔ آپ امن کے ایلچی کہلوانے میں آئیں گے۔ آپ دنیا پر واضح کردیں گے کہ آپ کے پاس عقوبت خانے نہیں ہیں کوئی برہنہ بھٹکتا ہوا شخص دکھائی نہیں دے گا۔ سب اچھا ہے۔ سب اچھا ہے۔ سب اچھا ہے۔ کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔

تازہ ترین