• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: زمین کو ہم سرکاری پانی سے سیراب کرتے ہیں اور ہر چھ ماہ بعد اُس پانی کا ٹیکس دیتے ہیں، جو بشرح 250روپے فی ایکڑ دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ نہروں کی کھدائی اور دیگر اخراجات پر بھی خرچ آتا ہے، ایسی صورت میں ہم فصل پر عشر دیں گے یا نصف عشر؟ (سکندرعلی اسماعیل، گھوٹکی)

جواب: زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار پر دی جانے والی زکوٰۃ کو ’’عُشر‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں:

(۱) اگر زمین بارانی ہو یعنی بارش کے پانی سے سیراب ہوتی ہو، تو اس پیداوار کا دسواں حصہ (یعنی دس فیصد) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا واجب ہے، یہی زمین سے پیدا ہونے والے زرعی سرمائے کی زکوٰۃ ہے۔

(۲) اگر زمین کو خود سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ(یعنی پانچ فیصد) صدقہ کرنا واجب ہے، اصطلاحاً اسے بھی عُشر کہتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک زرعی پیداوار پر عُشر عائد ہونے کے لیے کوئی کم از کم نصاب مقرر نہیں ہے، بس زمین سے جس قدر بھی پیداوار حاصل ہو، اُس پر عُشر(دس فیصد) یا نصف عُشر(پانچ فیصد)جیسی بھی صورت ہو، واجب ہے۔

سالم بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ جس زمین کو بارش یا چشموں نے سیراب کیا ہو، یا اس زمین نے خود اپنی رگوں اور جڑوں سے پانی کشید کیا ہو، اُس میں عُشر ہے اور جس زمین کو کنویں کے ڈولوں سے سیراب کیا گیا، اُس میں نصف عُشر ہے ، (صحیح بخاری :1483)‘‘۔ 

ایسی زمین کو آج کل نہری زمین کہا جاتا ہے۔ علّامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’ اور جس زمین کی آب پاشی بڑے ڈول اور دالیہ ( ایسے ڈول جسے جانور کھینچتے ہیں) سے کی جاتی ہو، اُس کی پیداوار سے نصفِ عُشر ( بیسواں حصہ یعنی پانچ فیصد) دیا جائے گا اور اگر نہر اور ڈول دونوں سے سیراب کی جاتی رہی ہو ،تو سال کے اکثر حصے کا اعتبار کیاجائے گا، اگر برابر ہے، تو نصف عشر واجب ہوگا ، جیساکہ ’’خزانۃ المفتّیین ‘‘ میں ہے، (فتاویٰ عالمگیری)‘‘۔

بارانی زمین میں کاشت کار کو موسمی اور علاقائی خصوصیات کی وجہ سے زمین کو سیراب کرنے میں بہت زیادہ محنت ومشقّت نہیں اٹھانا پڑتی، سیرابی کے لیے کاشتکار کو ٹیوب ویل، وغیرہ لگانے اور اس پر سرمایہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ وہ بارش کے پانی، قدرتی چشموں، زمین کی نمی اور دریاؤں کے پانیوں کی وجہ سے ازخود سیراب ہوتی رہتی ہے، ایسی زمین کی پیداوار پر عُشر یعنی پیداوار کا دسواں حصہ عائد کیا گیا ہے۔

البتہ پہاڑی ندی نالوں میں بارش اور قدرتی چشموں کا پانی ہوتا ہے اور اُن کے اَطراف کی زمین کا کچھ حصہ سیراب ہوتا ہے، وہ زمین بارانی کہلائے گی۔ آج کل بڑے دریاؤں پر ڈیم یا بیراج بنا کر نہریں نکالی جاتی ہیں اور اُن کے ذریعے جو زمین سیراب ہوتی ہے، چونکہ زمین دار یا کاشت کار کو اُس پانی کا آبیانہ دینا پڑتا ہے، لہٰذا اس طرح دریائی پانی کے استعمالی والی زمینیں بارانی نہیں رہیں، بلکہ نہری زمینیں بن گئی ہیں اور یہ غیر بارانی ہیں۔

زمین کو سیراب کرنے کے لیے کا شتکار کو مَشقّت کے ساتھ ساتھ محنت کے ذریعے یا قیمتاً پانی حاصل کرنا پڑے، مثلاً ٹیوب ویل یا رہٹ کے ذریعے پانی حاصل کرتا ہے یا پانی کے حصول کے لیے پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے یا نہری پانی کا ٹیکس یا آبیانہ دیتا ہے، اُس پر آدھا عُشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ(یعنی پانچ فیصد) مقرر کیا گیا ہے۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے، اس میں آپ پر پیداوار کا نصف عشر واجب ہے کہ یہ غیر بارانی زمین ہے۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

darululoomnaeemia508@gmail.com

اقراء سے مزید