• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ذکر الہٰی‘‘ اللہ کے قرب و رضا اور بندگی کا مظہر

مولانا محمد راشد شفیع

انسان کی فطرت ہے کہ وہ سکون کا متلاشی ہے۔ زندگی کی دوڑ، فکرِ معاش اور مسائل کے ہجوم میں دل بےچین ہوجاتا ہے۔ دولت، عیش و آرام، اور دنیا کی رنگینیوں میں وقتی راحت تو ملتی ہے ،مگر حقیقی اطمینان نہیں۔ دل کے اس اضطراب کا علاج صرف اسی کے پاس ہے جس نے دل کو پیدا کیا۔

قرآنِ کریم نے واضح اعلان فرمایا: "ألا بذکر اللہ تطمئن القُلوب"  سن لو! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ذکرِ الٰہی ایک نور ہے جو دل کے اندھیروں کو مٹا دیتا ہے، ایک مرہم ہے جو غموں کے زخم بھر دیتا ہے۔

یہ بندے اور خالق کے درمیان وہ پاکیزہ رشتہ ہے جو ہر حال میں امید، حوصلہ اور یقین بخشتا ہے۔ جب زبان پر "اللہ" کا نام جاری ہوتا ہے تو دل کی گہرائیوں میں اطمینان اترنے لگتا ہے۔ ذکر سے غافل انسان خواہ دنیا کا مالک بن جائے، اس کا دل ویران رہتا ہے۔اور جو اللہ کو یاد کرتا ہے، وہ تنگی میں بھی مطمئن رہتا ہے۔

ذکرِ الٰہی بندۂ مومن کی روح کی غذا ، ایمان کی تازگی اور زندگی کی اصل لذت ہے۔ یہ عبادت ایسی ہے جس کے لیے کسی خاص وقت، جگہ یا حالت کی قید نہیں۔ بس دل زندہ ہو، زبان متوجہ ہو، اور نیت خالص ہو تو ہر سانس ذکر بن جاتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قران کریم میں جا بجا ذکر ِالٰہی کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے اور ذکرِ الٰہی کے فوائد کو واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وہ لوگ جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، سن لو! اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ (سورۃ الرعد: 28)

دوسرے مقام پر ارشاد ہے: پس تم میرا ذکر کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔(سورۃ البقرہ: 152) ایک اور مقام پر ارشاد ہے: اے ایمان والو! اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔(سورۃ الأحزاب: 41–42)اسی طرح اللہ فرماتا ہے: اے ایمان والو! جب دشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(سورۃ الأنفال: 45)

ان آیات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان کے دل کا اصل سکون اور اطمینان صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ دنیا کی کوئی چیز اس روحانی راحت کا بدل نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ ہر حال میں، صبح و شام، خوشی و غم میں اسے یاد کرتے رہیں۔

ذکرِ الٰہی نہ صرف دلوں کو زندہ کرتا ہے بلکہ زندگی کو مقصد عطا کرتا ہے۔ جو بندہ اللہ کو یاد رکھتا ہے، وہ خود اللہ کی یاد میں شامل ہوجاتا ہے، اور یہ سب سے بڑی کرامت ہے۔ 

اللہ نے ذاکرین مرد و عورت دونوں کے لیے مغفرت اور عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری طرف جو اس کے ذکر سے غافل رہتا ہے، وہ ظاہری آسائشوں کے باوجود اندرونی تنگی اور بے سکونی میں مبتلا رہتا ہے۔ ذکر دراصل ایمان کی روح اور فلاح کی کنجی ہے۔ یہ مومن کو دنیا کے ہنگاموں میں بھی رب سے جوڑے رکھتا اور اسے قلبی سکون عطا کرتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی نبی کریم ﷺنے ذکرِ الٰہی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو نہیں کرتا، ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔(صحیح بخاری)

دوسرے مقام پر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور جب وہ میرے متعلق سوچتا ہے۔ (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرا ذکر کرتا ہے، میں اس کے ساتھ ہوں۔”(مسند احمد)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، رحمت ان پر چھا جاتی ہے، ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے پاس فرشتوں میں فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم) یہ بات بھی نبی کریم ﷺنے بیان فرمائی :اللہ کا ذکر کرنے والی زبان، شکر گزار دل، اور صابر بیوی یہ انسان کے لیے سب سے بہتر دولت ہیں۔(سنن ابن ماجہ)

خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی وہ روحانی غذا ہے جو دلوں کو زندہ اور ایمان کو تازہ رکھتی ہے۔ انسان جتنا دنیا کی چمک دمک میں الجھتا ہے، اتنا ہی اس کے دل پر غفلت کی گرد جمتی جاتی ہے، مگر جب وہ اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو یہ گرد چھٹنے لگتی ہے اور دل پر سکون اتر آتا ہے۔ ذکر بندے اور ربّ کے درمیان محبت کا رابطہ ہے جو ہر حال میں قائم رہتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں نہ وقت کی قید ہے نہ جگہ کی، نہ حالت کی پابندی۔ 

زبان جب "اللہ" کے نام سے تر ہوجاتی ہے تو دل کے زخم بھرنے لگتے ہیں، غموں کی دھند چھٹ جاتی ہے، اور امید کی روشنی دل میں جاگ اٹھتی ہے۔ جو بندہ ذکر میں مشغول رہتا ہے، اللہ تعالیٰ خود اس کا ذکر اپنے فرشتوں کے سامنے فرماتا ہے اس سے بڑھ کر عزت کیا ہو سکتی ہے؟ 

ذکر سے ایمان مضبوط، نیت خالص اور عمل صالح بنتا ہے۔ غفلت دل کو سخت کر دیتی ہے، جبکہ ذکر اسے نرم، مطمئن اور منور بنا دیتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جو مومن کو ظاہری تنگی میں بھی راحت عطا کرتا ہے۔ دراصل سکونِ قلب کی کنجی کسی دولت، رتبے یا تعلق میں نہیں بلکہ صرف ایک تعلق میں ہے ربّ کریم کے ساتھ تعلقِ ذکر میں۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ذکر ِالٰہی میں اپنے اوقات کو مشغول رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

اقراء سے مزید