ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری
ارشادِ ربانی ہے: ترجمہ: اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے۔ (سورۃ الزمر:۷)
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت واضح انداز میں بیان فرمادیا ہے کہ وہ کفر و ناشکری کو ناپسند کرتا ہے‘‘ کیونکہ وہ بندوں کے لئے نقصان اور خسارے کا باعث ہے اور’’ شکر گزاری و تابع داری کو پسند فرماتا ہے‘‘ اس لئے اس میں بندوں ہی کا فائدہ ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندوں کو اپنے رب کی شکر گزاری بجالانی چاہیے۔
آج اس وقت ہم مسلمانوں میں جو بیماریاں اور مایوسیاں پھیلی ہوئی ہیں ،اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور میں ’’ناشکری‘‘ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ آپ کسی بھی مجلس میں شریک ہوجائیں، کہیں دو چار آدمیوں کے ساتھ بیٹھ جائیں، کسی سواری میں سفر کررہے ہوں، کسی ہوٹل پر کھانا کھا رہے ہوں، کوئی دوست آپ کو ملنے آجائے یا آپ کسی دوست کو ملنے چلے جائیں، کہیں دوچار رشتے دار ہی اکٹھے کیوں نہ ہوجائیں، ہرجگہ یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ابتدائی دوچار حال واحوال کی باتیں پوچھ کر پھر جو مختلف تبصرے وتاثرات شروع ہوں گے، وہ سب اول تا آخر ناشکری سے لبریز ہوں گے۔
حالانکہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس کر کے اس کا شکر بجا لائے تو یہ خود اس کے لئے فائدہ مند ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے مزید نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے۔
ارشاد نبویﷺ ہے ’’یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ اپنے کسی بندے کو شکر کی توفیق دے اور پھر اس کی اس نعمت میں، جس پر وہ شکر کرتا ہے، اضافہ نہ فرمائے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خود فرمایا ہے کہ ’’اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نوازوں گا‘‘۔
جس طرح نعمتوں پر شکر ، نعمتوں میں اضافے کا باعث ہے، اسی طرح نعمتوں کی ناشکری ،نعمتوں کے چھن جانے اور زوال کا باعث ہے۔ تفسیر دُرِّ منثور میں حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ سے نقل کیا گیا ہے ’’اللہ جب تک چاہتا ہے بندے کو نعمت سے لطف اندوز ہونے دیتا ہے، پھر جب اس کی طرف کوئی شکر نہیں پاتا تو اسی نعمت کو عذاب میں بدل دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم سے پہلے لوگ شکر کو ’’محافظ اور نگہبان‘‘ کے نام سے یادکرتے تھے، وہ کہا کرتے تھے، نعمت کا تحفظ کرنے اور نعمت کو بچا رکھنے والی کوئی چیز ہے تو وہ شکر ہے، وہ کہا کرتے تھے شکر وہ چیز ہے جو کھوئی ہوئی نعمت کو بھی لوٹا لائے!!‘‘
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ایک تو قولی شکر ہے جو زبان سے ادا کیا جاتا ہے، جو اپنی جگہ بہت ضروری ہے لیکن اس پر اکتفا ء کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرا شکر ہے جو فعلی شکر کہلاتا ہے، جو اپنے اعضاء وجوارح کے ذریعے بجا لایا جاتا ہے، اس کا بھی ساتھ میں بجا لانا ضروری ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن جسمانی اور مالی نعمتوں سے نوازا ہے تو انسان ان کا شکر اپنے فعل سے اس طور پر ادا کرے کہ ان کا استعمال اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کے کاموں میں کرے۔
مثلاً وہ پنج وقتہ نمازوں کا، روزوں کا اہتمام کرے، حج فرض ہونے پر اس کی ادائیگی کرے، زکوٰۃ فرض ہونے پر اس کی ادائیگی کرے، اپنے مال سے صدقہ وخیرات کا اہتمام کرے، آنکھوں کو بد نظری وبد نگاہی سے بچائے، زبان سے شکوے و شکایت، گالم گلوچ، چغلی و غیبت کے بجائے خیر و سلامتی کی بات کرے، اپنی قوت و توانائی کو انسانیت کی بہتری و بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے، اپنی صلاحیتوں کو ملک و قوم کے لئے وقف کرے، کسی کو اپنی ذات سے کوئی دکھ اور تکلیف نہ دے، کسی کی کوئی حق تلفی نہ کرے۔ تب جاکر وہ اللہ کے شکر گزار بندوں میں شامل ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اور ہر طریقے سے شکر بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)