• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ظلم وتعدّی کے بغیر کسی کے لیے بددعا کرنا حرام ہے

تفہیم المسائل

سوال: میرا ایک رشتے دار جو سعودیہ میں مقیم ہے، میرے اور اس کے درمیان زمین کے مسئلے پر تنازع تھا، جسے خاندان کے بزرگوں نے حل کردیا، لیکن وہ اس فیصلے کو نہیں مانتا، ایک دن اس نے مدینہ طیبہ میں روضۂ رسول ﷺ کے سامنے کھڑے ہوکر مجھے اور میرے خاندان کو بددعائیں دیں اور بیت اللہ کے سامنے بھی کھڑے ہوکر مجھے بددعائیں دیتا رہا۔ 

اس دن نادانستہ طور پر میرے منہ سے نکل گیا: ’’ نبی کریم ﷺ تو ہم سب کے ہیں، صرف تمہاری بیوی یا ساس کے تو نھیں ‘‘، یہ جملہ کہنے کے بعد میں علانیہ توبہ کرچکا ہوں، ہمارا نبی آخر الزماں رسول اللہ ﷺ پر پختہ ایمان ہے، جبکہ وہ شخص مجھ پر بے ہودہ الزام لگا رہا ہے، پس سوال یہ ہے کہ میرا یہ جملہ شرعاً قابلِ گرفت تو نہیں ہے ؟ (ایک سائل، کراچی)

جواب: صورتِ مسئولہ میں آپ کے بقول آپ کا یہ جملہ: ’’ نبی کریم ﷺ تو ہم سب کے ہیں، صرف تمہاری بیوی یا ساس کے تو نھیں ‘‘ گستاخانہ نہیں ہے، انداز بے باکانہ ہوسکتا ہے، لیکن آپ توبہ کرچکے ہیں، یہ کافی ہے۔ کسی ظلم وتعدی کے بغیر اُس کے لیے بددعا کرنا حرام ہے، بیت اللہ اور مسجد نبوی میں اس کام کی شَناعت وقباحت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ان مقامات پر کلماتِ خیر کے علاوہ کسی مسلمان کے لیے بددعائیں کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ کسی کے حق میں کسی مصیبت کے آنے کی تمنا کرنا بھی جائز نہیں ہے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے خیر و عافیت کی دعا کرے۔

البتہ شریعت نے مظلوم کے لیے ظالم کے خلاف بد دعا کرنا جائز قرار دیا ہے، لیکن پھر بھی معاف کرنا افضل ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: اللہ تعالیٰ بآوازِ بلند بری بات کہنے کو ناپسند فرماتا ہے، سوائے مظلوم (کی بات ) کے، (سورۃالنساء: 148) ۔ پس مظلوم کو دادرسی کے لیے فریاد کرنے کا حق حاصل ہے۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا خانؒ لکھتے ہیں: ’’ سنی مسلمان اگر کسی پر ظالم نہیں تو اس کے لیے بددعا نہ چاہیے، بلکہ دعائے ہدایت کی جائے کہ جو گناہ کرتا ہے چھوڑ دے اور اگر ظالم ہے اور مسلمانوں کو اس سے ایذا ہے تو اس پر بد دعا میں حرج نہیں ہے، (فتاویٰ رضویہ، جلد23،ص:182)‘‘۔

حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ اپنے لیے اور اپنے اَموال اور اولاد کے لیے بد دعا نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ تمہاری بددعا کا وقت اللہ کی طرف سے قبولیت کا (وقت) ہو اور وہ تمہاری بددعا قبول فرمالے (پھر تم خود پچھتاتے پھرو) ،(صحیح مسلم:3009)‘‘۔

الغرض آپ اپنے ان مخالفین کے لیے خیر اور ہدایت کی دعا کریں۔ ہر بد دعا دینے والے کی بددعا قبول ہو، یہ ضروری نہیں ہے، مثلاً: کوئی شخص حق پر ہو اور دوسرا شخص اسے ناحق بد دعا دے تو اس کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ جب کفار ومشرکین کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے اُن کے لیے دعائے ضرر فرمائی ہے اور اس کی اب بھی اجازت ہے۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

darululoomnaeemia508@gmail.com

اقراء سے مزید