کراچی( افضل ندیم ڈوگر )ڈائریکٹر جنرل سیف سٹی اتھارٹی آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ ادارے کا ہیڈ افس صدر تھانے سے متصل زیر تعمیر ہے اور فی الوقت ہم سینٹر پولیس افس سے اس پروگرام کو کمانڈ کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل متنازعہ تصویر سیف سٹی کیمروں کی نہیں اور نہ ہی ای چالان سسٹم سے لی گئی ہے بلکہ وہ کسی پرائیویٹ کیمروں سے ممکنہ طور پر بنائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سیف سٹی میں انتہائی قسم کی سیکورٹی ہے پولیس افسران کو بھی ویڈیوز یا تصاویر ایک سسٹم کے تحت ریکارڈ پر لاکر فراہم کی جاتی ہیں۔ آصف اعجاز شیخ نے بتایا کہ سیف سٹی پروگرام کے پہلے مرحلے کا 95 فیصد کام سرویلنس سسٹم کا ہے جس کے تحت پورے شہر میں 300 پول لگ چکے ہیں 1300 میں سے ساڑھے 900 کیمرے لگ چکے ہیں۔ ایف آر کیمرے لگنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلا فیز 30 نومبر تک مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا فیز بلڈنگ کا ہے جو 31 مئی 2027 کو تیار ہونی تھی لیکن وزیراعلی سندھ نے خاص طور پر ہدایت دی ہیں اور اب نئے پروگرام کے تحت 30 ستمبر 2026 کو اس کا افتتاح ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہزار کیمروں کے ذریعے ای چالان کا کام ہو رہا ہے۔ جس میں 800 کیمرے سیف سٹی اتھارٹی کے ہیں 200 کیمرے جو ٹریفک پولیس نے کیے ہیں وہ اگلے مرحلے میں شامل کیے جائیں گے. انہوں نے کہا کہ انٹیلیجنس ٹریفک سسٹم کے کیمرے ہیں پہلے فیز میں ہم نے لگانا شروع کر دیے ہیں. یہ کیمرہ خود کار لینڈ مارکنگ کے تحت کام کرتا ہے کیمرے پر خود کار ڈیٹیکٹ سسٹم لگا ہوگا جو جس میں جو ہدایات فیڈ کی گئی ہوں گی اس کمانڈ کے مطابق ہی کام کرے گا. انہوں نے کہا کہ یہ استحقاق ڈی ائی جی ٹریفک کا ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی پہلے مرحلے میں کن خلاف ورزیوں پر جرمانوں کو ترجیح دیتے ہیں اصف اعجاز شیخ نے بتایا کہ اے این پی ار کیمرے 410 لگنا شروع ہو گئے ہیں جس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں جس کے تحت کریمنل اور مقدمات میں مطلوب لوگوں کی بھی گرفتاریاں ہو رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اب تک ایسے 8 افراد کو کراچی کے مختلف علاقوں سے کیمروں کی نشاندہی پر گرفتار کیا ہے نے بتایا کہ ان کے ڈیٹا بیس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کریمنلز کا ریکارڈ فیڈ کیا جا چکا ہے اور جس میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔