• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھوٹے منہ سے بڑی بات سنیں ۔میں نے بھی یہ بات سنی ہے اس لئے آپ کو سنا رہا ہوں ۔دنیا میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جو تصدیق سے کہہ سکے کہ اسے کسی سے یا کسی چیز سے ڈر نہ لگتا ہو ۔ اگر آپ اپنے آپ کو ایسے لوگوں میں شمار کرتے ہیں تو پھر آپ بہت بڑی خوش فہمی کا شکار ہیں ۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ آپ کو ڈر نہ لگتا ہو ۔ جس طرح ہر شخص سے اسکی خامیاں اور خوبیاں وابستہ ہوتی ہیں عین اسی طرح ڈر اور خوف انسان سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ تعجب مجھے تب ہوتا ہے جب دیکھے بھالے لوگ انکار کردیتے ہیں او ردھڑلے سے سینہ تان کر کہہ دیتے ہیں کہ ان کو کسی ہستی ،کسی شے سے ڈر نہیں لگتا۔ڈر لازماً لگتا ہے مگر ہم اعتراف نہیں کرتے کچھ لوگ ڈر کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں ۔ ڈر اور خوف ہمارے نفسیاتی وجود کا حصہ ہیں ۔ ڈر کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرنا بے مقصد اور بے معنی ہے ایک طاقتور شخص کو ملک کا سربراہ بننے کا بہت شوق تھا۔وہ ملک کا حکمران بن بیٹھا۔عوام الناس کو متاثر کرنے کیلئے وہ آئے دن مٹھیاں بھینچ بھینچ تقریریں کرتا تھا۔میٹنگوں کے درمیان بھی وہ مٹھیاں بھینچ لیتا تھا۔بند مٹھیاں ہوا میں لہراتے ہوئے کہتا تھا میں کسی سے نہیں ڈرتا،میں کسی سے نہیں ڈرتا اس کے باورچیوں ،اردلیوں ،مالیوںاور ڈرائیوروں نے سب کو بتا دیا تھا کہ مطلق العنان کاکروچ اور چھپکلی سے بہت ڈرتا تھا ۔ مکڑیوں سے تو اس کی جان نکلتی تھی ۔ مگر مشہور تھا کہ وہ نڈر تھا ، کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔مطلق العنان لوگوں کوبتاتے ہوئے شرمندگی نہیں محسوس کرتا تھا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا حالانکہ وہ کاکروچ، چھپکلی اور مکڑیوں سے ڈرتا تھا ، تھر تھر کانپتا تھا مانا کہ مطلق العنان ٹینکوں اور توپوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ مگر وہ حقیقت میں چھپکلیوں سے ڈرتا تھا کاکروچوں سے ڈرتا تھا بڑی بڑی بالوں والی مکڑیوں سے اس کی جان جاتی تھی۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ بڑے سے بڑا نڈر رینگنے والے اور اڑنے والے کیڑے مکوڑوں سے ڈرتا ہے ۔ ایک بہت بڑا پہلوان جو اکھاڑے میں آنکھ جھپکتے مدمقابل پہلوانوں کو چاروں شانے چت کردیتا تھاوہ اندھیرے اور جن بھوتوں سے ڈرتا تھا اس کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا تھا جس میں بڑے بوڑھے اور بڑی بوڑھیاں آپس میں جن بھوتوں کے قصے کہانیاں ایک دوسرے کو سناتےتھے ۔ اندھیروں میں سنائی دینے والی بھیانک اور ہول ناک آوازوں کا ذکر بڑی شد و مد سے کرتے تھے ۔ نامور پہلوان کی رگ رگ میں غیر طبعی اورما فوق الفطرت ڈر دوڑنے لگتا تھا اپنے ڈر اور خوف سے چھٹکارا پانے کیلئے پہلوان نے طرح طرح کے تعویز گنڈے گلے سے لٹکا رکھے تھے کمال کی بات ہے کہ وہ کسی سے اپنا ڈر اور خوف چھپاتا نہیں تھا مقابلوں کے دوران کبھی بھی اپنے گلے سے تعویز اور گنڈے اتارتا نہیں تھا۔

ایک پرانے منجھے ہوئے سیاستدان کو جن بھوتوں اور چڑیلوں پر مکمل یقین تھا اسے یقین تھا کہ اس کی گاؤں والی حویلی پر جن بھوتوں اور چڑیلوں نے قبضہ کرلیا ہے ۔جن بھوتوں اور چڑیلوں سے حویلی چھڑوانے کیلئے سیاستدان کو جتنے بھی مشورے دیئے گئے ان پر سیاستدان نے عمل کرکے دیکھا، مگر وہ جن بھوتوں اور چڑیلوں سے حویلی خالی کرانے میں ناکام رہا وہ جب بھی حویلی کا رخ کرتا اس پر گندے انڈوں کی بوچھاڑ ہوتی ، تالیاں بجا بجا کر اسے حویلی سے بھگا دیا جاتا ایک آسیب زدہ حویلی کی وجہ سے اسکے سیاسی کارنامے خطرے میں پڑ گئے تھے اپنے ہم عصر اور ہم نفس سیاستدانوں سے مشورہ کرنے کے بعد منجھے ہوئے سیاستدان نے اپنی موروثی حویلی بیچنے کا فیصلہ کرلیا حویلی ایک سیدھے سادے شخص نے خریدلی ۔ سیدھے سادے شخص نے منجھے ہوئے سیاستدان کی سیاست کا بھٹہ بٹھا دیا۔ سیدھا سادا شخص کوئی سیاستدان نہیں تھا وہ ہائی اسکول کا ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹرتھا اس نے اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر کے ایک کمرے میں اسکول اور دوسرے کمرے میں ایک کلینک کھول رکھا تھا ۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان ڈاکٹر کلینک چلاتا تھا۔ ٹوٹا پھوٹا اسکول تین شفٹوں میں چلتا تھا پہلی شفٹ میں پہلی اور دوسری کلاس کے بچے اور بچیاں داخل تھیں ۔ دوسری شفٹ میں تیسری اور چوتھی کلاس کے بچے اور بچیاں داخل تھیں۔ تیسری شفٹ میں پانچویں کلاس کے بچے اور بچیاں داخل تھیں ۔پنشن کی تمام جمع پونجی اور بینک سے قرض لے کر ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نے حویلی خریدی تھی۔ اس نے اپنا پرانا گھر بھی بیچ دیا تھا ، قدیم آسیب زدہ حویلی کے کچھ کمروں میں ہیڈ ماسٹر نے اسکول کھولا ، دو کمروں میں کلینک کام کرنے لگا ۔ گاؤں کی کایا بدلنے لگی کچھ عرصے بعد لوگوں نے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر کو انتخابات میں کھڑا کردیا اور اسے جتوادیا۔ یہ سنی سنائی کہانیاں ہیں ڈر سے ہم پیچھا چھڑا نہیں سکتے میں نے چھوٹے پیمانے پر انٹرویو کرکے دیکھے ہیں لوگ اپنے ہی وطن میں خوف زدہ ہیں۔ اداروں کے نام لینا بیکار ہے آپ کا جائز کام بھی نیچے سے اوپر تک رشوت دیئے بغیر نہیں ہوسکتا جن کا کام آپ کی حفاظت کرنا ہے وہ آپ کو لوٹ لیتے ہیں، آپ صبح سویرے گھر سے کام کے لئے نکلتے ہیں پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتے تنخواہ لیکر آپ گھر لوٹتے ہیں دروازہ کے باہر دو موٹر سائیکل سوار آپ کو ملتے ہیں آپ سے تنخواہ چھین لیتے ہیں اور آپ کو گولی مار کر چلے جاتے ہیں۔ ملازمت کے لئے آپ کے پاس لیاقت ہے مگر ملازمت کسی نالائق کو مل جاتی ہے ہم اپنے ماحول سے ڈرتے ہیں دفتر میں اپنے چھوٹے سے لیکر بڑے افسر تک سب سے ڈرتے ہیں ۔ ہم اپنے دادا قسم کے پڑوسیوں سے ڈرتے ہیں جو ہمارے کنکشن سے اپنے لئے مفت بجلی اور سوئی گیس لیتے رہتے ہیں ایسے میں ڈر تو لگتا ہے بھائی!

تازہ ترین