• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرآنِ کریم میں’’شرک‘‘کو ظُلمِ عظیم اور ناقابلِ معافی گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے
قرآنِ کریم میں’’شرک‘‘کو ظُلمِ عظیم اور ناقابلِ معافی گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

اسلام ایک خالص توحیدی دین ہے جو انسان کو صرف ایک اللہ کی عبادت، اطاعت اور بندگی کی دعوت دیتا ہے۔ توحید اسلام کی بنیاد ہے، اور اس کے مقابل جو گناہ سب سے بڑا اور ناقابل معافی ہے، وہ شرک ہے۔ شرک کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو اس کی ذات، صفات، اختیارات یا عبادت میں شریک ٹھہرانا۔ قرآن و سنّت میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: بے شک، اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے سوا جسے چاہے معاف کر دیتا ہے۔(سورۃ النساء: 48) اس آیت سے واضح ہے کہ شرک وہ گناہ ہے جس کی بخشش توبہ کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک اور مقام پر فرمایا: بے شک، جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔(سورۃ المائدہ: 72)

قرآن حکیم نے شرک کو سب سے بڑی گمراہی قرار دیا ہے، اس حوالے سے فرمایا گیا: اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، وہ یقیناً دور کی گمراہی میں جا پڑا۔(سورۃ النساء: 116) انبیاء علیہم السلام نے بھی ہمیشہ شرک سے منع کیاجس کےلیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی:ترجمہ: اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پوجا سے بچا۔(سورۂ ابراہیم: 35)

متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺنے شرک سے بازرہنے کا حکم صادر فرمایا ہے، صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کون سی ہلاک کرنے والی چیزیں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’الشرک باللہ‘‘ ہلاکت خیز گناہوں سے بچو، ان میں سب سے پہلا ہے اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔(بخاری و مسلم 

جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا تھا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مجھے تم پر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ چھوٹا شرک ہے، یعنی ریاکاری۔(مسند احمد)

حتیٰ کہ نیت میں دکھاوا بھی شرکِ اصغر ہے، جو اعمال کو برباد کر دیتا ہے۔شرک انسان کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔ ترجمہ: اگر تو شرک کرے گا تو یقیناً تیرے سارے اعمال برباد ہو جائیں گے۔(سورۃ الزمر: 65)

اللہ جلّ جلالہ فرماتا ہے: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا، اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا(سورۃالزمر، 65)

ایک مقام پر فرمایا گیا: بلاشبہ اللہ مغفرت نہیں کرتا یہ کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے، اس کے علاوہ جسے چاہے وہ معاف کر دے اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے اُس نے بہت بڑا بہتان باندھا(سورۃ النساء: 48)

نبی کریم ﷺاور ایمان والوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت طلب کریں اگرچہ وہ (ان کے) قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں(سورۃالتوبۃ: 113)

درحقیقت ایسے لوگ کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم (علیہما السلام) ہے حالانکہ مسیح (علیہ السلام) نے (تو یہ) کہا تھا: اے بنی اسرائیل! تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے۔ بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گاتو یقیناً اللہ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا۔(سورۃ المائدہ،72)

شرک کرنے والا اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے، شرک کے باعث انسان دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل ہوتا ہے۔اسلام کی بنیاد توحید پر ہے، اور شرک اس بنیاد کو منہدم کر دیتا ہے۔ شرک کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کے حق میں سب سے بڑی ناانصافی ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا: ترجمہ: بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔(سورۂ لقمان: 13)

لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شرک کی ہر قسم سے خواہ وہ ظاہر ہو یا چھپا، بڑا ہو یا چھوٹا مکمل اجتناب کرے، اور خالص توحید پر قائم رہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو اِس حال میں فوت ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ میں نے کہا (اس کا مطلب ہے کہ) جو شخص اِس حال میں فوت ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سات مہلک باتوں سے بچو۔ صحابہؓ نے عرض کیا ،یا رسول اللہﷺ! یہ کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی جان کو ناحق مارنا، سود کا کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن(میدانِ جہاد میں) پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن ایمان والی عورتوں کو تہمت لگانا۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: معاذ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ﷺہی خوب جانتے ہیں، فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ کریں، اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو کوئی بھی شرک نہ کرے اسے عذاب نہ دے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا میں لوگوں کو بشارت نہ دے دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں بشارت نہ دو کیونکہ وہ اس پر بھروسہ کر لیں گے۔(صحیح بخاری ومسلم)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے معاذ ؓ سے فرمایا جو شخص اللہ سے ملے اور وہ دنیا میں شرک نہ کرتا ہو تو وہ بہشت میں جائے گا۔ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ دوں، آپ ﷺنے فرمایا نہیں میں ڈرتا ہوں کہیں وہ (اسی پر) بھروسا نہ کر بیٹھیں۔(بخاری، جلد اول کتاب العلم حدیث نمبر:129)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کو معراج کی سیرکرائی گئی تو آپؐ کو چھٹے آسمان پر سدرۃ المنتہٰی تک لے جایا گیا زمین سے اوپر چڑھنے والی چیز (اعمال، شہدا کی روحیں اور مخلوق کا علم) اور اوپر سے نیچے آنے والی چیز (اللہ کے احکام) یہاں آکر رک جاتی ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ کو معراج کے دوران تین چیزیں عطا کی گئیں٭ پانچ نمازیں٭سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں٭اور آپﷺ کی امت میں ہر ایک ایسے بندے کے لیے بخشش کی بشارت جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔(مسلم،کتاب الایمان)

شرک سب سے بڑا گناہ، ناقابلِ معافی جرم، اور انسان کو ہمیشہ کے لیے ہلاکت میں ڈال دینے والا عمل ہے۔ نجات صرف اسی کے لیے ہے جو خالص توحید پر ایمان رکھتا ہو اور اپنی عبادت، محبت، دعا اور خوف و امید صرف اللہ کے لیے خاص کرے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ خالق کائنات ہمیں شرک سے محفوظ رکھے اور توحید و ختم نبوت پر قائم و دائم رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)

اقراء سے مزید