ڈاکٹر نعمان نعیم
عہدِ حاضر میں احترامِ انسانیت اور انسانی حقوق کی اصطلاح کثیرالاستعمال ہے۔ مشرق و مغرب، غرض دنیا کے ہر خطّے میں احترام انسانیت، حرّیتِ فرد، شخصی آزادی اور انسانی حقوق بنیادی موضوع کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ جب کہ یہ ابدی اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ احترامِ انسانیت اور انسانی حقوق کا فلسفہ محسنِ انسانیت، غم گسارِ دوجہاں، انسانیت کے تاج دار، حقوق انسانی کے سب سے بڑے علم بردار، رسالت مآب ﷺ نے متعارف فرمایا۔
آپﷺ نے حرّیتِ فکر، شخصی آزادی، احترام انسانیت، انسانی مساوات، غلامی کے بتدریج خاتمے اور غلاموں (آج کی اصطلاح میں محنت کشوں، خادموں، یا بہ الفاظ دیگر مزدوروں) کے حقوق کے متعلق میدانِ عرفات میں انسانی حقوق کے اولین اور عالم گیر منشور انسانیت ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ میں انقلابی اعلان فرمایا۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے غلام، تمہارے غلام، ان سے اچھا سلوک کرو، انہیں وہی کچھ کھلائوجو تم خود کھاتے ہو، اور انہیں وہی پہناؤ جیسا تم خود پہنتے ہو۔(ابن سعد/الطبقات الکبریٰ) آپﷺ کا یہ ارشاد گرامی عہدِ رسالت کے ان خادموں، محنت کشوں اور مزدوروں کے متعلق تھا جو اس دور کے بین الاقوامی قانون اور معاشرتی تہذیب و اقدار کے حوالے سے اپنے مالک و مولیٰ کی ملکیت گردانا جاتا تھا، اسے اپنی ملکیت میں ہر طرح کے تصرف کا پورا اختیار اور کامل اقتدار حاصل تھا۔ لیکن غم گسار جہاں ﷺ نے ان خادموں اور مزدوروں تک کے حقوق کے تحفظ اور احترامِ انسانیت کی اس درجے تلقین فرمائی کہ غلام اور آقا، آجر اور اجیر مقام و مرتبے میں مساوی قرار پائے اور اس طرح بتدریج خادموں اور مزدوروں کے حقوق کی آگہی اور شعور کا ارتقاء عمل میں آیا۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے ’’حلال روزی کی تلاش میں محنت و کاوش کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پورے ایک سال امام عادل کے ساتھ جہاد کرنے سے افضل ہے۔(ابن عساکر) ایک اور حدیث میں آتا ہے: ’’چھوٹے بچوں، ماں باپ اور خود اپنی کفالت کے لئے دوڑ دھوپ (سعی) کرنا اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا ہے۔ (المعجم الصغیر للطبرانی)
ایک حدیث میں ہے: ’’ترجمہ: سب سے پاکیزہ عمل یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ہاتھوں سے کمائے۔ (شعب الایمان للبیہقی )ایک اور حدیث میں آتا ہے : ’’ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری)
یہ حدیث مبارکہ بھی ہم اپنی روزمرہ زندگی میں سنتے ہیں: ترجمہ: اللہ تعالیٰ ایسے مومن بندے کو پسند کرتا ہے جو صنعت و حرفت سے وا بستہ ہے۔ ایک مرتبہ رسولِ پاک ﷺنے حضرت حکیم بن حزام ؓ سے ارشاد فرمایا:’’ سب سے حلال رزق وہ ہے جس میں دونوں پاؤں چلیں، ہاتھ کام کریں اور پیشانی عرق آلود ہوجائے۔ (مسندالفردوس للدیلمی)
نبی پاک ﷺکی اِن روشن اور واضح ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مزدوروں کو ایک انتہائی اونچا اور افضل مقام حاصل ہے، جس کی حیثیت معاشرے کے دیگر پیشوں سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ اس کے بعد مزدوروں کے حقوق کا مسئلہ آتا ہے جس میں سب سے بنیادی اور پہلی چیز اُن کی اُجرت کی مقدار کا تعین ہے۔
اس حوالے سے یہ حدیث مبارکہ ہے جس میں آپ ﷺنے آقاؤں، مالکوں اور کام کرانے والوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے کہ مزدور لوگ بھی تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت رکھا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس کے ماتحت اس کے (مزدور) بھائی کو رکھا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اُسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے ،اُسے کسی ایسے کام کی تکلیف نہ دے جو اس کے لئے دُشوار گزار ہو اور اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر اس کی مدد کرے۔ (صحیح بخاری،صحیح مسلم)
نبی آ خرالزماں ﷺنے اپنے اِس ارشاد میں دو قسم کی باتوں کی تعلیم دی ہے، ایک تو یہ کہ اپنے خادموں اور ملازموں کو بھائی کا درجہ دیا جائے اور دوسرے یہ کہ ان کو ایسی اُجرت دی جائے کہ وہ قریب قریب آجر کے معیار پر زندگی گزار سکیں۔آنحضرت ﷺ اور آپﷺ کے جاں نثار صحابۂ کرام ؓ اس ہدایت پر مکمل عمل کرتے تھے۔یہ حضرات اپنے خادموں اورغلاموں کو وہی کھلاتے تھے جو وہ خود کھاتے تھے اور اُن کو وہی پہناتے تھے جو خود پہنتے تھے۔
چنانچہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حضرت ابوذر غفاری ؓ اور ان کے ایک غلام ایک ہی قسم کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، ایک شخص نے عرض کیا: آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ وہ چادر بھی خود اوڑھ لیں، تاکہ اس کا جوڑا ہوجائے اور غلام کو کوئی اور چادر دے دیں؟ تو حضرت ابوذر ؓ نے اس سے انکار کرتے ہوئے حضور ﷺ کی اس حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا کہ جو خود پہنو، وہی غلام کو پہناؤ!‘‘ (صحیح بخاری)
اس سے معلوم ہوا کہ مزدوروں اور ملازموں کی اُجرت اس قدر ہونی چاہئے کہ کم از کم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں ان کا معیارِ زندگی مالکوں اور آقائوں کے قریب قریب ہو۔ دوسرے یہ کہ اُجرت کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ مزدور و خادم اہل و عیال کی اچھی طرح پرورش کرسکے اور اُن کی ضروریاتِ زندگی پوری کرسکے۔
اُجرت کے سلسلے میں اس اُصولی ہدایت کے بعد اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس کی مقدار پہلے ہی واضح کردی جائے تاکہ ابہام اور شک و شبہ باقی نہ رہے ۔چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اُس وقت تک کسی مزدور سے کام لینے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ اس کی اُجرت واضح (طور پرطے)نہ کردی جائے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی)
ایک حدیث میں آتا ہے حضور سرور کائنات ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ تین شخص ایسے ہیں جن کا قیامت کے دن میں فریق ہوں گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اُجرت نہ دے۔‘‘(صحیح بخاری) ایک حدیث میں آتا ہے کہ مزدور کی اُجرت فوراً ادا کی جائے۔ چنانچہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: مزدور کی اُجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے۔‘‘(سنن ابن ماجہ )
اسلام دین فطرت ہے۔ اس پاکیزہ اور کامل دین نے دیگر طبقات کی طرح ’’آجر واجیر‘‘ اور ادائیگی حقوق وفرائض کا نہ صرف تعین کیا، بلکہ فریقین کو حقوق و فرائض کے حصول کی جانب متوجہ بھی فرمایا۔ ظاہر ہے کہ اگر فریقین اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی فکر میں ہوں اور ادائیگی وفرائض کے باوجود اپنی کوتاہی کا احساس دل میں رکھتے ہوں تو وہ دوسرے فریق کو اپنا محسن اور اپنے آپ کو کوتاہ متصور کریں گے۔
آجر کے ذہن میں ہو گا کہ میں مزدور کے حقوق حقیقی معنوں میں ادا نہیں کرپا رہا، میرے رزق اور معیشت کا ذریعہ وسبب یہ مزدور اور ملازم ہیں، ان ہی کی بدولت میرا کاروبار اور کام رواں دواں ہے، حقیقت میں یہ اُن کی کمائی ہے جو میں اور میرا خاندان استعمال کر رہے ہیں۔ میں جو کچھ انہیں معاوضہ دے رہا ہوں، ان کا حق اس سے بڑھ کر ہے۔
مجھے ان کے ساتھ حسنِ سلوک، مروت اور تواضع وعاجزی سے پیش آنا ہے، ان کے دکھ درد کو سمجھنا چاہیے، ان کی خوشی وغمی میں شریک ہونا ہے، ان کی مشکل کو حل کرنا ہے۔ یہ احساس ایسے آجر کو اجیروں اور مزدوروں میں یوں محبوب بنا دے گا کہ مزدور ایسے آجر پر اپنی جان تک نچھاور کر دیں گے اور وہ اس کے مال کے محافظ اور عزت کے رکھوالے ہوں گے۔
اگر مزدور کے دل ودماغ میں یہ تصور اُجاگر ہو جائے کہ رزق ومعیشت کا ذریعہ آجر اور اس کا کاروبار ہے۔ میں اپنی جن ذمہ داریوں کے عوض تنخواہ ومشاہرہ وصول کرتا ہوں، حقیقت میں وہ ذمہ داریاں صحیح طور پر نہیں نبھا رہا، مجھے ملنے والے معاوضہ کا بوجھ اور حق میرے کندھوں پر قائم ہے، میری عزت وروزگار میرے عمل اور میرے آجر سے قائم ہے، مجھے پوری دیانت وامانت اور قوت سے اپنے کام انجام دینا ہے۔
یقین کیجئے! ایسے مزدور اور اجیر پر اس کا آجر ومالک اپنی جان چھڑکے گا اور اپنا تن من دھن اس شخص پر قربان کرنا سعادت سمجھے گا۔ یہی اسلام کا کمال ہے کہ اس نے بجائے حقوق حاصل کرنے کی تحریک پیدا کرنے کے، ادائیگی فرائض کی تحریک پیدا کی ہے۔ آجر واجیر کو اپنے فرائضِ منصبی کی طرف متوجہ فرمایا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اجیر یعنی ملازم ومزدور کے فرائض کو بیان فرمایا ہے۔
ایک اچھے ملازم کی بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ محنتی، باہمت، فرض شناس، حاضر باش اور اپنے کام میں ماہر ہو۔ اگر مذکورہ بالا اوصاف میں سے کسی ایک وصف کا بھی ملازم میں فقدان ہو تو وہ ملازم ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً ملازم بدمحنت، کوتاہ، کام چور، غافل اور غیرذمہ دار ہو، غیر حاضر اور اپنے کام سے متعلق ناواقف ہو، کام کا تجربہ یا طریقہ اُسے نہ آتا ہو تو یقیناً ایسے ملازم سے نفرت کی جائے گی، اسے ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بنایا جائے گا، اس کی ملازمت پر انگلیاں اٹھیں گی۔ اس لیے قرآن کریم نے ہر ملازم، مزدور کو اس کی بنیادی ذمہ داریوں کی جانب اس جامع الفظ ’’القوی‘‘ سے متوجہ فرمایا۔
واضح رہے کہ اجیر سے مراد گارہ، سیمنٹ، سریا، اینٹ اٹھا کر دینے والے ہی نہیں، بلکہ وہ تمام لوگ اجیر کے زمرے میں شامل ہیں جو اپنی خدمات کا عوض وصول کرتے ہیں مثلاً جملہ سرکاری ملازمین، پرائیوٹ ملازمین، اسکولوں اور مدارس کے اساتذہ کرام ودیگر عملہ دکانوں، فیکٹریوں، ہوٹلوں اور اداروں میں کام کرنے والے لوگ کل وقتی ملازمین،جزوقتی ملازمین، منشی، محاسب اور خدّام وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔
دوسری خصوصیت قرآن کریم نے اچھے ملازم ومزدور کی ’’الامین‘‘ کے لفظ میں ذکر فرمائی۔ ملازم ومزدور کے فرائض میں ہے کہ وہ ہمہ قسم امانت ودیانت کا مرتکب ہو، مالک کے مال، رقم، اثاثہ جات، راز، کاروباری سکریسی وغیرہ میں امانت ودیانت کامظاہرہ کرے، کسی بھی طور پر مذکورہ بالا امور میں خیانت نہ کرے۔
آج کل بدقسمتی سے بددیانتی، خیانت ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بددیانتی اور کرپشن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔ امانت اور ایمان لازم وملزوم ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کاارشادِ گرامی ہے: ’’وہ شخص ایمان والا نہیں جو امانت دار نہیں۔‘‘
آپ ﷺ نے ایک حدیث میں خیانت کو نفاق کی علامت قرار دیا۔ خائن اور کرپٹ عناصر کے لیے آپ ﷺ نے روزِ محشر پیشگی طور پر اظہارِ برأت فرما دیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:’’میں تم میں سے کسی کوروز محشر اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ خیانت کا مرتکب ہو کر یوں کہے: اے اللہ کے رسول مجھے بچا لیجئے، میں نہیں بچا سکوں گا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
رسول اللہ ﷺ کا تعارف صادق وامین سے ہے۔ اس لیے چور، کرپٹ، خائن شخص کومحمدی کہلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ایک اچھے ملازم ومزدور کو اپنے اندر امانت والا وصف پیدا کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے مزدور کے حقوق کے بارے میں سخت تاکید کی ہے صرف اجیر ہی نہیں شریعت مطہرہ نے ہر حق دار کے حق کی ادائیگی کو لازم قرار دیا۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اور لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرو۔‘‘(سورۃالشعراء)
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے عطا کر دو۔‘‘صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے ،حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہےـ: ’’تین آدمیوں کی جانب سے روز محشر مَیں خود ہی مدعی بنوں گا۔ ۱)…وہ شخص جس نے میرا نام لے کر دھوکا دیا۔۲)… جس شخص نے کسی آزاد شخص کو پکڑ کر فروخت کر دیا، پھر اس کی رقم کھا گیا۔۳)…ایسا شخص جس نے کسی مزدور سے مزدوری کرائی، مزدور نے اپنا عمل پورا کرلیا ،لیکن آجر نے اُسے اُجرت ومزدوری نہ دی۔
ایسے شخص کے خلاف حق تعالیٰ اپنی عدالت عالیہ میں مدعی بن کر دعویٰ دائر فرماکر اُس سے مزدور وملازم کو حق دلوائیں گے۔ روزِ محشر مال ودولت کام نہ آئے گا، اس لیے ادائیگی حق کی صورت یہ ہوگی کہ آجر کی حسنات ونیکیاں اجیر کے گناہ ومعصیتیں آجر کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔ کتب احادیث میں مزدورکے حق کی ادائیگی کرنے پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے خصوصی نصرت کا واقعہ مذکور ہے جو کہ معروف واقعہ ہے:’’زمانہ گزشتہ میں تین مسافر طوفان کی وجہ سے ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔
اس غار پر چٹان ٹوٹ کر گرجانے کی وجہ سے اس کا دہانہ بند ہو کر رہ گیا تھا۔ چٹان اتنی وزنی تھی کہ ہٹائے ہٹتی بھی نہ تھی۔ تینوں مسافروں نے حق تعالیٰ سے اپنے اپنے نیک اعمال کی برکت سے دعا کی۔ اُن میں سے ایک شخص یوں گویا ہوا: ’’اے اللہ! آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایک مزدور سے کام لیا تھا، وہ مزدور اجرت لیے بغیر چلا گیا، میں نے اس کی اجرت سے کاروبار کیا جو کہ کافی زیادہ ہو گیا۔
عرصہ دارز کے بعد وہ شخص میرے پاس آیا اور اپنی اجرت کا تقاضا کیا تو میں نے گائے اور بکریوں کے ریوڑ اور دیگر سامان کے بارے میں اُسے بتایا: ’’یہ سب تیرا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا: ’’میرے ساتھ مذاق نہ کیجئے، میری تو چند ٹکے مزدوری آپ کے پاس ہے، مجھے ادا کیجئے۔‘‘ میں نے کہا: ’’میں مذاق نہیں کررہا، چنانچہ میں نے سارا مال اُسے دے دیا۔‘‘
اے اللہ! اگر یہ عمل تیری رضا کے لیے تھا تو اس آفت کو دور فرما۔ حق تعالیٰ نے اس شخص اور دیگر دونوں اشخاص کے نیک اعمال کی برکت سے مکمل طور پر چٹان کا دہانہ کھول دیا اور تینوں مسافر اپنی راہ چل دیے۔‘‘یہ مزدور کے حقوق کی ادائیگی کی برکت ہے۔