• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے، آج کل اس کا رجحان بڑھ گیا ہے کہ ہر کام میں لوگ کمیشن لیتے ہیں، کوئی کہے کہ میرا یہ کام کرا دو تو کچھ پیسے رکھ لیتے ہیں کہ یہ میرا کمیشن ہے، کوئی پرچیز کرنی ہو، اس میں کمیشن رکھ لیتے ہیں۔ تو یہ بتائیں یہ سود میں آئے گا یا یہ جائز ہے؟

جواب: بازار میں جو افراد فری لانس مختلف افراد یا کمپنیوں کا مال کسی اور کو دلواتے یا خریدواتے ہیں اور اپنا مقررہ یا معروف کمیشن وصول کرتے ہیں، ان کا یہ کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز ہے۔

البتہ وہ افراد جو کسی کمپنی میں ملازم ہوں اور کمپنی کا مال بیچنے یا کمپنی کے لیے مال خریدنے پر مامور ہوں اور اس کام کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہوں، ان کے لیے کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں۔ 

نیز وہ شخص جسے کسی نے مال خریدنے کے حوالے سے اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہو، اس کے لیے قیمتِ خرید سے زائد کے واؤچر بنوا کر اپنے موکل (اصل خریدار) سے بطورِ کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں یہ سود تو نہیں کہلائے گا، تاہم دھوکا دہی اور خیانت کی وجہ سے یہ کمیشن ناجائز ہے۔

اصولی طور پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بروکری لینا شرعاً اس وقت جائز ہوتا ہے، جب کہ بروکر سامان کی خریداری یا فروخت کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، لہٰذا اگر کسی پارٹی سے ایک مرتبہ مال دلوانے کے بعد آئندہ وہ دونوں پارٹیاں براہِ راست معاملات کریں، جس میں تعارف کرانے والے شخص کی محنت اور کوشش نہ ہو تو ایسی صورت میں دونوں پارٹیوں کو باہم متعارف کرانے والے شخص کوکمیشن کے مطالبے کا شرعاً حق نہیں ہوتا۔ (رد المحتار6/ 63)

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

iqra@banuri.edu.pk

اقراء سے مزید