پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اچھے اور برے اعمال سے متعلق آگاہی کے لئے اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے نبی اور رسول بھیجتا رہا ہے اور ان انبیاء و رسل کا سلسلہ حضرت محمدﷺ پر ختم کر کے آپﷺ کو خاتم النبیین اور قرآن کو آخری کتاب ہدایت قرار دےکر اس امر پر مہر ثبت کر دی گئی کہ اب قیامت تک نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ کسی الہامی کتاب کی، اب قرآن محفوظ ترین صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ اللہ اور رسول پاک ﷺ کی کسی بات میں شک کرنا، جھٹلانا، عیب لگانا یا مذاق اڑانا، ان سب باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ جن باتوں کو اللہ نے رسول ﷺ کے ذریعے برا بتایا انہیں ’’گناہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ گناہ کو حلال اور جائز سمجھنے سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ ایمان کو دوطرح سے بیان کیا گیا۔ ’’ایمانِ مفصّل‘‘اور ’’ایمانِ مُجمل‘‘ ۔
ہر چند کہ ہمارے ’’ناظرہ قرآن کریم‘‘ کے گھر یلو تربیتی نظام اور مساجد و مدارس کے تعلیمی نصاب میں رائج چھ کلمے اور " ایمان مجمل و ایمان مفصل" کا متن قرآن و حدیث میں کہیں بھی بعینہ موجود نہیں، بلکہ قرآن و حدیث کی مختلف عبارات سے اخذ کر کے ناظرہ قرآن کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اور عقائد و ایمان کی پختگی کے لئے ترتیب دئیے گئے، یہ بچوں کی گھریلو تربیت کی ایک بڑی اہم اور بہترین نتائج کی حامل روایت کے حامل ہیں۔
ایمانِ مفصّل یہ ہے کہ بندہ یہ کہے کہ’’ میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور تقدیر پر کہ خیر و شر اللہ ہی کے اندازے سے طے شدہ ہیں اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر‘‘ ایمانِ مجمل یہ ہے کہ ’’میں ایمان لایا اللہ پر جیسے کہ وہ اپنے ناموں اور صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے سارے احکامات کو قبول کیا، میں اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرتا ہوں ‘‘۔
یہی دینِ فطرت کی اصل اساس ہے۔ جسے ہردور میں انبیائے کرام علیہم السلام پیش کرتے رہے۔ ان میں سے بعض نے اس نظریے پر مبنی زندگی کے پروگرام یعنی ’’نظام حیات‘‘بھی پیش کئے جنہیں ان انبیائے کرام کی شریعتیں کہا جاتا ہے۔
آخری شریعت یا نظامِ حیات وہ ہے جسے خاتم النبیین ﷺ نے پیش کیا اور جس میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی ترقی ہی کا نہیں، بلکہ اس کی اقتصادی، روحانی اور عقلی ترقی کا بھی ایسا صحت مندانہ اور متوازن امتزاج ہے کہ اس سے بہتر تصور کیا ہی نہیں جاسکتا۔
پھر یہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پروگرام کو محض بطور نظریہ پیش کر دیا ہو، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس پر عمل کر کے دکھایا اور ساتھ ہی ایسا معاشرہ تشکیل دے کر دکھایا جو ویسا ہی مثالی معاشرہ تھا، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کا اپنا اسوئہ حسنہ مثالی تھا جو ہمیشہ کے لئے سب پہلوں اور پچھلوں کے لئے نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے۔
ایمان یا دینی نظریہ حیات کے مقابل ایک اور نظریہ حیات ہے جسے لادینی نظریہ حیات (سیکولرازم) یا کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اور کل کائنات کے متعلق یہ سمجھے کہ ان کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے اور موجودہ زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ ایسا شخص اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھے گا اور اس دنیا کی چند روزہ زندگی کے فوری مفادات ہی اس کا مقصدِ حیات ہوں گے۔
ہر وقت دولت، مراتب اور عشرت کا حصول اس کے سامنے ہوگا اور وہ جس طریقے سے بھی انہیں حاصل کر سکے گا، کرے گا۔ نہ اسے مکرو فریب سے باک ہوگا اور نہ ظلم و جور سے، نہ اسے کسی کے حق کا لحاظ ہو گا اور نہ کسی کے جذبات کا احترام۔ نہ اسے کسی اور کی عزت کی پروا ہوگی اور نہ اپنی عزت کی۔ ایسے ہی لوگ معاشرے کی تمام برائیوں کی جڑ بنتے ہیں۔
یہ وہ زندہ لاشیں ہیں جو خود بھی گلتی سڑتی رہتی ہیں اور اپنے اردگرد بھی بدبو اور تعفّن پھیلاتی رہتی ہیں اور آہستہ آہستہ پورے معاشرے کی فضا کو مسموم اور زہر آلود کردیتی ہیں۔ پھر یہ تنگ نظری اور خود غرضی وبائی امراض کی طرح ایک سے دوسرے میں سرایت کر تی جاتی ہے، چونکہ ہر شخص اور ہر گروہ کا ذاتی مفاد بالعموم دوسروں سے متصادم ہوتا ہے، اس لئے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارا معاشرہ فتنہ و فساد سے بھر جاتا ہے۔
نہ کسی کا مال محفوظ ہوتا ہے، نہ جان اور عزت۔ اس لادینی اور کفر پر مبنی نظریۂ حیات کا مزید برا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص یا گروہ کے اپنا ذاتی مفاد پیش نظر رکھنے کے باعث اجتماعی مفاد خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جب کائنات کے خالق و مالک پر ایمان نہ ہو، نہ اس کی خوشنودی مقصدِ حیات ہو اور نہ ہی اس کے سامنے ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس ہو تو پھر زندگی صرف خود غرضی ، ذاتی مفاد اور حیوانی خواہشات کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہم اوپر بیان کر ہی چکے ہیں۔
جب تک موت کے بعد کی زندگی پر ایمان نہ ہو اور اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس آنے والی زندگی کا دارو مدار موجودہ زندگی میں کئے گئے اعمال پر ہے، اس وقت تک انسان کے اعمال میں وزن پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ راکھ سے بھی کم وزن ہوتے ہیں۔ جنہیں ہوا و ہوس کی آندھیاں ادھر سے ادھر اور اُدھر سے اِ دھر اڑائے پھرتی ہیں۔
مشہور حدیث ہے، حضرت جبرائیلؑ کا حضور اکرم ﷺ سے ایمان ، اسلام اور احسان کے بارے میں استفسار کرنا ،اس کے جواب میں رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد کہ ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اللہ سے ملاقات پر اور اللہ کے پیغمبروں پر یقین کرو، نیز قیامت کے دن پر یقین کرو‘‘ پھر فرمایا کہ ’’اسلام یہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج ، جہاد، ارکان اسلام کی ادائیگی اور پابندی کرو ‘‘ پھر فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے دیکھ سکو (اور ایسی کیفیت و محویت حاصل نہ ہو) تو وہ تو یقیناً تم کو دیکھ ہی رہا ہے‘‘
اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے امت کو پورا پورا علم عطا فرما دیا ہے کہ ایمان نام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات کو سچا سمجھنے اور دل سے اسے قبول کر لینے کا۔ اس میں فرشتوں ، رسولوں ، روز قیامت ، تقدیر اور آسمانی کتابوں کو سچا جاننا اور سچا ماننا سب کچھ آگیا، بلکہ اللہ اور اس کے رسولوں کے ایک ایک ارشاد کی تصدیق بھی اس میں داخل ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص قرآن کی ایک آیت یا ایک حکم کا بھی انکار کرے، اسے اللہ تعالیٰ کا حکم نہ سمجھے یا اس کی توہین کرے، وہ نعمتِ ایمان سے محروم ہوگا۔ اس سے ایمانِ مجمل و ایمانِ مفصل دونوں آسانی سے سمجھ میں آگئے، اسی طرح اس حدیث سے اسلام کے معنی بھی واضح ہوگئے کہ سچا جاننے اور دل سے سچا مان لینے کے بعد اس کے تقاضوں کے مطابق ان کے احکام کی تعمیل بھی کی جائے اور احسان یہ کہ اعمال زندگی بجا لانے میں اتنا اخلاص پیدا ہوجائے کہ جیسے اللہ کو دیکھتا جا رہا ہے اور اس کے احکام کی تعمیل کر تا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ محویت نصیب ہوگی تو شوق و ذوق اور محبت و خشیت سے احکام کی بجا آوری ہوگی اور اگر یہ حالت نصیب نہ ہو تو پھر یہ تصور پختہ کیا جائے کہ ہمارا آقا، خالق و مالک ہر وقت ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس طرح بھی خشوع و خضوع کی کیفیت بلند ہوگی اور نسل انسانی خالق و مخلوق کی حق تلفی اور ہر طرح کی بد اعمالی سے بچ کر انسانی معاشرے کی پاکیزگی کا موجب ہوگی۔
مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے بغیر اعمال کی کوئی حقیقت نہیں اور اعمالِ صالحہ نہ ہوں تو اگرچہ درخت کی جڑ باقی ہے ،مگر ایمان کا درخت بے رونق اور سرسبز و شادابی سے محروم ہے اور اگر احسان بھی نصیب ہو تو للہیت اور اخلاص کی بجلی ہمارے اعمال و افعال کو لاکھوں گناہ زیادہ قابل قبول بنا دے گی۔
دین اسلام اسی لئے اللہ کی صفات میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ اس کا خوف اور اس کی محبت ہمارے دل و دماغ پر غالب آکر ہمیں حیوانوں اور درندوں کی سطح سے اونچا کر کے عدل و انصاف امن و امان اور بہترین اخلاق کا داعی بنادے۔
فرمانِ رسول ﷺ کے بموجب ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہـ" اگر کسی کلمہ گو کے دل میں ذرہ برابر بھی نیکی ہو گی تو وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا"بے شک اللہ تعالیٰ ایمان کی قدر کرتے ہوئے کسی گناہ گار مومن کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں نہیں رہنے دیں گے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نیک اعمال ترک کر دیئے جائیں اور ارتکاب جرائم میں بے باکی اختیار کی جائے۔
یہ ہے ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصّل کا مختصر بیان ، ایمان مجمل میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا زبان سے اقرار اور دل سے اس کی تصدیق کے ساتھ ساتھ اللہ کے سارے احکام کو اجمالاً دل سے مان لینا بھی ہے ۔ایمان مفصل میں اللہ پر ایمان ہے اور اس بات پر ایمان کہ اللہ اپنے رسولوں کے ذریعے انسانوں کی رہنمائی فرماتا رہا ہے۔ رہنمائی کے لئے اس نے رسولوں پر اپنے فرشتوں کے ذریعہ کتابیں نازل فرمائیں۔
علاوہ ازیں ایمان مفصل میں اس زندگی کے بعد کی زندگی پر ایمان ہے۔ نیز یومِ آخرت پر ایمان ، جب موجودہ زندگی میں کئے گئے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی اور اس کے نتیجے کے مطابق نئی زندگی عطا ہو گی۔ مزید یہ کہ اس میں اچھی اور بری تقدیر کا بھی ذکر ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔