• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے یا آخری تشہُّد کے دوران جماعت میں شامل ہونے والا مقتدی کیا پوری ’’اَلتَّحِیَّات ‘‘ پڑھے گا؟

تفہیم المسائل

سوال: اگر مقتدی درمیان تشہّد میں نماز میں شامل ہوتا ہے اور اس کے تشہّد شروع کرنے سے پہلے یا مکمل کرنے سے پہلے امام کھڑا ہوجاتا ہے تو مقتدی کے لئے کیا حکم ہے؟ اسی طرح آخری قعدہ میں ایسا ہوجائے تو کیا حکم ہے، (مولانا محمد احمد ساجد ، بصیر پور ضلع اوکاڑہ )

جواب: وہ مقتدی جو ابتدا سے امام کے ساتھ نماز میں شامل ہے، اُس کے لیے قعدۂ اُولیٰ پر بیٹھنا اور تشہُّد کا پورا پڑھنا واجب ہے اور قعدۂ اخیرہ کے لیے تشہُّد کی مقدار بیٹھنا فرض اور پورے تشہُّد کا پڑھنا واجب ہے، تو اگر امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے اور مقتدی نے اپنا تشہُّد پورا نہ پڑھا ہو، تو وہ تشہُّد پورا کرکے کھڑا ہو، لیکن اگر اُسے اندیشہ ہو کہ امام جلدی فاتحہ مکمل کرکے رکوع میں چلا جائے گا، تو تشہُّد نامکمل چھوڑ کر امام کے ساتھ قیام میں شامل ہوجائے۔

وہ مقتدی جو نماز کے درمیان میں پہلے یا آخری تشہُّد میں امام کے ساتھ آکر شامل ہو، تو قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ چونکہ اُس کی اپنی ترتیب کے اعتبار سے نہ اُس کا پہلا قعدہ ہے اور نہ آخری ،لہٰذا وہ تشہُّد ناتمام چھوڑ کر بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔

علامہ ابن عابدین شامی نے اِ ن دو صورتوں میں مسبوق مقتدی کے لیے تشہُّد پورا پڑھنے کو اپنا مختار قرار دیا ہے اور نامکمل چھوڑنے کو بھی جائز رکھا ہے ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’تشہُّد کے مکمل پڑھنے کو مطلقاً واجب قرار دینا اِس صورت کو بھی شامل ہے کہ اگر مقتدی پہلے یا آخری قعدہ کے دوران امام کے ساتھ جماعت میں شامل ہوا اور وہ جوںہی بیٹھا امام(تیسری رکعت کے لیے ) کھڑا ہوگیا یا اُس نے سلام پھیر دیا، تو’’اَلتَّحِیَّات‘‘ مل پڑھنے کو مطلقاً واجب قرار دینے کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مقتدی بھی’’التحیات‘‘ پوری پڑھے، پھر کھڑا ہو، لیکن میں نے یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ کہیں دیکھا نہیں ہے، پھر میں نے دیکھا کہ ’’الذخیرہ‘‘ میں ابو اللیث سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ اِ س صورت میں بھی ’’التحیات‘‘ پوری پڑھے اور اگر پوری نہ پڑھے، تو بھی جائز ہے، اللہ تعالیٰ کا بے پایاں شکرہے کہ اُس نے اِس مسئلے میں میری صحیح رہنمائی فرمائی، (ردّالمحتار علیٰ الدر المختار ،جلد2،ص:176، بیروت)‘‘۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

darululoomnaeemia508@gmail.com

اقراء سے مزید