یہ قریبا ایک سال پہلے کا واقعہ ہے لیکن مجھے بھولتا نہیں ہے !فون کی گھنٹی بجی، میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف ایک نوجوان تھا ’’ سر میر انام افضال ہے میں بی اے کا طالب علم ہوں اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے ہاکر کا کام کرتا ہوں میں اس وقت سخت پریشان ہوں غم اور غصے کی شدت سے میری دماغ کی نسیں پھٹنے والی ہیں۔ آپ میری مدد کریں !‘‘اگر چہ یہ نو جوان میرے لیے اجنبی تھا لیکن انسانی ہمدردی کے ناتے مجھے اسکی حالت سے سخت تشویش لاحق ہوئی ’’کیا بات ہے بیٹے ، میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں ‘‘،میں نے پوچھا’’سر مجھے بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے لیکن آپکو یہ سب کچھ بتانا بھی ضروری ہے نہیں تو میں پاگل ہو جاؤں گا‘‘۔ میں تمہارا دوست ہوں تم بغیر کسی جھجک کے مجھے ساری بات بتاؤ میں نے اسے تسلی دی۔سر،بات یہ ہے کہ آج میں نے ٹی وی آن کیا سی این این پر ایک انگریزی فلم چل رہی تھی، اس وقت میرے پاس میری بہن، میری والدہ ور میرے والد صاحب بیٹھے تھے، پھر سر یوں ہوا کہ اچانک ایک عریاں سین چلنا شروع ہوگیا اس قدر واہیات کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔’’ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی فلم میں عریاں سین؟ یہ کیسے ممکن ہے !‘‘سرا مجھے اسی بات کا تو صدمہ ہے، پھر اس نے سین کی جو تفصیل بتائی اس کے مطابق یہ کوئی نارمل فلم نہیں بلیوفلم تھی!’’میرے لیے تمہاری بات پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے بیٹے ، ایسا ہو نہیں سکتا؟‘‘سرمیں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا، یہ فلم آج رات کو ڈیڑھ بجے پھر دکھائی جائے گی۔ آپ ضرور دیکھیں اور اس کیخلاف لکھیں، میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کو بم سے اڑا دینا چاہتا ہوں ، سر! اگر آپ نے اس فلم کیخلاف احتجاج نہ کیا تو میں اپنے اس ارادے کو عملی جامہ ضرور پہناؤں گا !میں اس نوجوان کی باتوں سے پریشان ہو گیا تھا، تاہم میں نے کہا ’’ میں فلم دیکھنے کے بعد ہی اس فلم کے بارے میں کوئی رائے دے سکتا ہوں‘‘میں رات کو کافی دیر سے سونے کا عادی ہوں مگر اتفاق سے اس روز مجھے بارہ بجے ہی نیند آ گئی اور میں سوگیا۔مجھے یاد نہیں رہا کہ میں نے اس نوجوان سے فلم دیکھنے کا وعدہ کیا تھا۔
رات کو ٹھیک سوا ایک بجے فون کی گھنٹی بجی، میں آنکھیں ملتا ہوا فون کے پاس گیا دوسری طرف وہی نوجوان تھا ’’سر! تھوڑی دیر بعد فلم چلنے والی ہے ، آپ ضرور دیکھیں اور پھر اس پر لکھیں۔ اگر آپ نے اس سلسلے میں کچھ نہ کیا تو میں خواہ کچھ بھی ہو جائے ٹی وی اسٹیشن کو بم سے اڑا دوں گا، سر میں اس سے پہلے ایک سینما میں دھماکا کر چکا ہوں لہذا آپ میری بات کو دھمکی نہ سمجھیں ۔ اب فحاشی کی وبا ٹی وی تک آ پہنچی ہے، ہم سب کو یہ سلسلہ یہیں تک روکنا ہو گا سر !‘‘
یہ جیمز بانڈ ٹائپ فلم تھی۔ میں جب آدھی کے قریب فلم دیکھ چکا تو میں نے محسوس کیا کہ اس میں تو سرے سے کوئی قابل اعتراض منظر نہیں ہے، بلکہ جو مناظر سینما میں دکھائے جاتے ہیں ، یہاں ٹی وی کی پالیسی کے مطابق وہ منظر بھی حذف کر دیئے گئے تھے، مجھے اس نوجوان پر سخت غصہ آیا کہ اس نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا دوسرے ہی لمحے مجھے اس کے لہجے کی سنگینی یاد آئی اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟اتنے میں ایک دفعہ پھر فون کی گھنٹی بجی، یہ وہی نوجوان تھا ’’سر! آپ مجھے کوس رہے ہونگے کہ اس فلم میں تو ایسی کوئی بات نہیں لیکن وہ سین اب آنیوالا ہے ۔ فلم کی ہیروئن ابھی غسل خانے میں داخل ہوگی اور بالکل برہنہ حالت میں غسل کریگی ، آپ پلیز ٹی وی بند نہ کریں، صرف یہ سین دیکھ لیں تا کہ آپکو یقین آ جائے کہ میں نے جو کہا تھا، سچ کہا تھا‘‘میں نے ایک دفعہ پھر ٹی وی پر اپنی نظریں گاڑ دیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سین آگیا۔ فلم کی ہیرون مکمل لباس میں ملبوس غسل خانے میں داخل ہوتی ہے اور غسل خانے کا دروازہ بند کرتی ہے۔ لیکن اس کیساتھ ہی یہ سین یہاں ختم ہو جاتا ہے اور پھر اس سے اگلا کوئی سین چلنے لگتا ہے۔میں نے سوچا اگر یہ نوجوان مجھے اس وقت مل جائے تو میں اسکی گردن دبا دوں ، جس نے میری نیند خراب کی اور میرے ساتھ اتنا بدمزہ مذاق کیا۔میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی ’’سر! آپ نے دیکھا کس قدر شرمناک منظر تھا؟ کیا ٹی وی حکام کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں، کیا نوجوانوں کے اخلاق پر اسی طرح ڈاکہ ڈالا جاتا رہے گا، کیا فحاشی کا یہ سلسلہ اس طرح جاری رہے گا ؟ اور پھر یہ سب کچھ کہتے کہتے اس نوجو ان کی آواز بھر آگئی سرا کچھ کریں خدا کیلئے کچھ کریں‘‘تھوڑی دیر پہلے مجھے اس نوجوان پر جو غصہ آیا تھا، وہ ایک دم ختم ہوگیا اور مجھے اک بار پھر اس کیساتھ ہمدردی پیدا ہوگئی۔ میں نے کہا ’’بیٹے تم نے جس سین کی بابت مجھے بتایا تھا، وہ تو اس میں تھا ہی نہیں۔ تم کس بات پر اتنے پریشان ہو‘‘یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سر، میں نے ابھی وہ سین خود دیکھا ہے۔ آپ کو نظر نہیں آیا ۔ اس کے لہجے میں شدیدحیرت تھی۔
’’نہیں بیٹے مجھے صرف وہی سین نظر آیا جو فلم میں تھا‘‘۔تو کیا میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں سر ؟وہ سخت پریشان لگ رہا تھا ۔میں اس نوجوان کا مسئلہ سمجھ گیا تھا’’ تم غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے بیٹے مجھے وہ سین نظر آیا جو فلم میں تھا اور تمہیں وہ سین نظر آیا جو تم دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ سین پہلے تم نے لاشعوری طور پر ذہن میں سوچا اور پھر تمہاری آنکھوں نے اسے دیکھا۔ نفسیات کی زبان میں اسے سیلوی ٹیشن کہتے ہیں‘‘تو کیا میں نفسیاتی مریض ہوں سر؟ اس کی آواز کانپ رہی تھی!ہاں ’’ مگر تم اکیلے نہیں ہو ہماری پوری قوم مختلف محرومیوں کی وجہ سے شدید نفسیاتی الجھنوں کاشکار ہو چکی ہے ہمیں ہر تصویر وہی تصویر نظر آتی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے رویوں میں منافقت آگئی ہے ۔ ہم اکیلے میں کچھ اور ہوتے ہیں اور ایک دوسرے شخص کی موجودگی میں کچھ اور ، ہم میں سے ہر شخص نہایت اعلیٰ درجے کی اخلاقی گفتگو کرتا ہے لیکن جتنے ہولناک جنسی جرائم ہمارے اس اخلاقی معاشرے میں ہوتے ہیں، وہ اخلاق باختہ معاشروں میں بھی نہیں ہوتے۔ میں تمہاری ذہنی حالت سے واقف ہوں، یہ تشویشناک ضرور ہے لیکن اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تمہاری حالت اس شخص کی سی ہے جو کئی دنوں سے بھوکا ہو اور اس کے چاروں طرف بھوک بڑھانے والے کھانوں کی خوشبو پھیلی ہو‘‘۔میں تو آپ کی باتوں سے پریشان ہو گیا ہوں سر ، کیا اس فلم میں وہ سین واقعی نہیں تھا، مجھے مشورہ دیں سر مجھے کیاکرنا چاہیے؟’’تمہیں یہ نظام تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں بچیاں جہیز کی وجہ سے اور بچے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے انتظار میں جوانی کی حدیں بغیر جیون ساتھی کے عبور کر جاتے ہیں اور پھر اس دور کی محرومیاں شادی کے بعد بھی انکا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور سوچوں میں زہر گھولتی رہتی ہیں !‘‘جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوتا ، اس وقت تک میں کیا کروں سر ؟ نوجوان نے روہانسی آواز میں پوچھا۔ ’’تزکیہ نفس کیلئے کوئی وظیفہ وغیرہ کیا کرو میرے بیٹے ! ‘‘اور پھر میں نے فون بند کر دیا۔ اس کے بعد دیر تک فون کی گھٹی بجتی رہی مگر میں اپنے کانوں میں روئی دے کر بستر پر جا کر لیٹ گیا اور بے چینی سے کروٹیں لینے لگا۔