وطن عزیز پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی مشکلات کا شکار ہے ۔ اس وقت مشرقی و مغربی سرحد پر ہماری مسلح افواج مستعد اور چاق و چوبند کھڑی ہیں ۔ الحمدللہ پوری پاکستانی قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ ہر چیلنج سے نمٹنے کا جذبہ اور ولولہ تازہ رکھتی ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ایک دیرینہ قومی مسئلہ ہے ۔عافیہ صدیقی امریکی جیل میں اذیت ناک سلوک سے دوچار ہیں ۔ پوری قوم ان کی رہائی کے لیے فکر مند ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کی بیٹی اور امت کی آبرو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے توقعات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ اگرچہ اس اہم اور قومی مسئلے پر سنجیدگی سے ابھی تک حکومتی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ 22 سال سے زائد عرصہ سے ناحق قید میں ہیں ۔ اس وقت ان کی رہائی کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں ۔ اگر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر انسانی ہمدردی کے اس معاملےپر فوری اقدامات کریں اور امریکی حکام سے بات کی جائے تو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی قید سے جلد رہا ہو کر وطن واپس آسکتی ہے ۔ اس اقدام سے یقینا ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا ۔اسی تناظر میں مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے چشم کشا خط لکھا ہے جو کہ نذر قارئین ہے۔
محترم محمد فاروق چوہان صاحب!
کالم نگار روزنامہ جنگ،
السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ،
آپ کے کالمز میں پڑھتی ہوں۔ آپ کے قلم میں تاثیر ہے۔ میں عافیہ صدیقی کے کیس کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر گہرے رنج اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھ رہی ہوں کہ بار بار حکومت کایہ دعویٰ کرنا کہ ’’ہم عافیہ کو رہا کرانے کی کوشش کررہے ہیں ، کریں گے اور اس کی رہائی کے لیے ہر ممکن کام کر چکے ہیں‘‘اور عدالت کے سامنے یہ کہنا کہ عافیہ کا کیس ’’ثمر آور‘‘ ہو چکا ہے،سب غلط ہے حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ ان دعووں کے باوجود عافیہ جیل میں جنسی تشدد سمیت شدید اذیت اور دیگر خوفناک مظالم کا شکار ہے، یہ صورتحال ان دعووں کے مقابلے میں متضاد اور غیر حقیقی ہے۔ اور گھما پھرا کر یہ کہنے کی کوشش کرنا تو بے عزتی کے مترادف ہے کہ میں حکومت سے اسی کے مفادات کے خلاف کام کا مطالبہ کررہی ہوں ،جبکہ ہم نے حکومت کے ساتھ مل کر طویل عرصہ تک عافیہ کی ہمدردانہ رہائی کی تحریک کی حمایت کے لئے کام کیا ہے، اور یہ کہا ہے کہ حکومت عافیہ کی ہمدردانہ بنیاد پر رہائی کی درخواست کی حمایت کرے ۔ بجائے اس کے کہ حکومت ان حقائق کی تصدیق کرے جو میری بہن کی قید نا حق کے بارے میں بیان کیے گئے ہیں۔الٹا اسے ریاست کے مفاد کے خلاف کہنا درست نہیں۔ریاست کا موقف ہے کہ ہمدردانہ رہائی کی اپیل میں ریاست کےمفاد کے خلاف نکات ہیں تو وہ آگے آئیں اور ان نکات کی وضاحت کریں ،ریاست کا مفاد تو ہمیں بھی عزیز ہے۔ایسے نکات نکال دیں گے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی بات بین الاقوامی سطح پر نہ آئے تو وہ خود اپیل دائر کردے، مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ایک قابل فخر پاکستانی کے طور پر، میں دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ پاکستان اپنے شہریوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، آئین کی پابندی کرتا ہے، اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتا ہے۔ اور عافیہ موومنٹ اس بات پر مکمل طور پر کاربند ہے ۔ میرا خاندان اسلام اور نظریہ پاکستان کی ایک تاریخ رکھتا ہے، اور میری والدہ کے پردادا سلیم الدین چشتی تاریخ میں ایک نمایاں شخصیت رہے ہیں۔ ہمارے خاندان نے پاکستان کے لیے اہم قربانیاں دی ہیں، اور یہ بات دل توڑ دینے والی ہے کہ عین اس وقت جب ہمیں مدد کی اشد ضرورت ہے ،ہماری مدد نہ کی جائے، حالانکہ حکومت کا اصل مقصد اپنے لوگوں کے لیے کام کرنا ہے۔ حکومت کی بے اعتنائی اور کوششیں’’ثمر آور‘‘ ہونے کا بے تکااستعمال (جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کام مکمل ہو چکا ہے) شرمناک ہے، یعنی عافیہ رہا ہوچکی ہے۔جب کہ عافیہ کو غیر انسانی سلوک، شدید طبی مسائل کا سامنا ہے، اور ان کی زندگی مسلسل خطرے میں ہے۔ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے، یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔
میں آپ پر زور دیتی ہوں کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عافیہ کی ہمدردانہ رہائی کی حمایت کریں۔ کیا پاکستان کی بیٹی کو جنسی زیادتی اور بے عزتی سے بچانے کے لیے پوچھنا پاکستانی حکومت کے لئے اتنا نقصان دہ ہے؟
میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ عافیہ کو اس کےآئینی حقوق دلوائیں ،اور ایک معقول اور شائستہ رویہ اختیار کریں۔ ان کی ہمدردانہ رہائی کی حمایت میں حکومت کےچند الفاظ اہم قدم ہوںگے۔ حکومت صرف اتنا کرے کہ ایک مضبوط اور قائل کرنے والے پاکستانی وکیل کو بھیج دے جو عافیہ کی رہائی میں امریکی حکام سےتعاون اور مدد کرسکے۔یہ آپ کا آئینی فریضہ ہے، اور عدالت کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کام کو یقینی بنائے۔ مجھے امید ہے بلکہ درحقیقت توقع ہےکہ اس ہفتے کے اختتام تک ایک مثبت جواب ملے گا۔
والسلام ،
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی