• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎عالمی سطح پر ماحولیاتی مسائل روز بروز سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی حدت میں اضافہ،آلودگی، جنگلات کی کمی اور پانی کی قلت جیسے مسائل ہر ملک کیلئے چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہےموسم بدل رہے ہیں اور قومیں لمحہ لمحہ اس حقیقت کا سامنا کر رہی ہیں کہ ترقی کا سفر اب صرف سڑکوں اور پلوں تک محدود نہیں رہابلکہ یہ ماحول، فضا،جنگلات، پانی اور مستقبل کی پائیداری سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی صوبہ کوئی حکومت یا کوئی سیاسی رہنما ماحولیات کے محاذ پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ صرف مقامی نہیں بلکہ عالمی کامیابی کہلاتی ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی برازیل میں اقوامِ متحدہ کے تعاون سے منعقدہCOP-30میں شرکت اس حوالے سے ایک سنگِ میل ہے۔ جس میں پنجاب حکومت کے ماحولیاتی وژن کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ مریم نواز کا یہ دورہ محض ایک سفارتی سرگرمی نہیں تھا بلکہ اس بات کا اعلان تھا کہ پنجاب صرف داخلی ترقی یا انفراسٹرکچر تک محدود نہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلی،پائیداری اور جدید شہری ترقی کے نئے ایجنڈے میں حصہ لینے کیلئے تیار ہے۔ مریم نواز نے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کیلئے جس اعتماد اور تیاری کے ساتھ برازیل میں اپنی موجودگی کو مؤثر بنایا‘ وہ پاکستان کیلئے ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔ مریم نواز نے اپنے خطاب اور عالمی ملاقاتوں میں نہ صرف صوبے کے ماحول دوست اقدامات کی تفصیل پیش کی بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ پنجاب کا مقصد ماحولیات کے معاملے میں عالمی معیار کے مطابق ترقی کرنا ہے۔ 

‎مریم نواز نے اپنے خطاب میں سب سے نمایاں طور پر اپنی ’’Clean Punjab‘‘ حکمتِ عملی کو اجاگر کیا‘ جو صوبے میں صفائی‘ سیوریج کے مؤثر انتظام اور شہری ماحولیاتی نظم و ضبط کی مضبوطی کیلئے تیار کی گئی ہے۔ یہ صرف ایک نعرہ یا پروموشن نہیں بلکہ پنجاب میں ماحولیات کے مسائل کے حل کیلئے ایک مربوط حکمتِ عملی کی تصویر ہے۔ شہر اور دیہات میں سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے‘ ری سائیکلنگ کو فروغ دینے اور شہری ماحول کو صاف رکھنے کے اقدامات اس وژن کی عملی جھلک ہیں۔ اسی طرح پنجاب حکومت کا ماحولیاتی تحفظ کیلئے ای موبلٹی (Electric Mobility) کا ایجنڈا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ بجلی سے چلنے والی بسیں، موٹرسائیکلیں اور رکشے نہ صرف شہری ٹرانسپورٹ میں سہولت پیدا کرتے ہیں بلکہ کاربن کے اخراج کو کم کر کے ماحول کی بہتری میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اقدام پاکستان جیسے ملک کیلئے‘ جو ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے‘ ایک مستحکم اور عملی قدم ہے۔

‎مریم نواز نے کاپ 30کے موقع پر اپنی تقریروں میں جنگلی حیات کے تحفظ اور بحالی کے اقدامات کو بھی اجاگر کیا۔ جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات میں جنگی حیات کیلئے محفوظ علاقوں‘ نگرانی کے مؤثر نظام کے قیام اور قوانین میں اصلاحات جیسے اقدامات شامل ہیںجو ماحول دوست حکومت کے وژن کو عملی شکل دیتے ہیں۔ پنجاب حکومت کا ویسٹ ٹو ویلیو کا وژن بھی پنجاب کے ماحولیاتی اور اقتصادی مستقبل کیلئے ایک اہم قدم ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف فضلے کے مؤثر استعمال کو یقینی بناتی ہے بلکہ سرکلر اکانومی کے اصولوں کے تحت صوبے کو عالمی معیار کے مطابق ترقی کی راہ پر لے جا سکتی ہے۔

COP-30 کے دوران مریم نواز نے متعدد بین الاقوامی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کیں جن میں ترقیاتی بینک،عالمی مالیاتی اداروں اور اقوام متحدہ کے اہم عہدیدار شامل ہیں۔ یہ ملاقاتیں نہ صرف پنجاب کے ماحولیاتی منصوبوں کیلئے تکنیکی معاونت اور مالی وسائل کے حصول کے حوالے سے اہم رہیں بلکہ اس سے بین الاقوامی تعاون کے نئے دروازے بھی کھلے ۔ مزید برآں کاپ 30 کے موقع پر برازیل میں پاکستان پویلین کا افتتاح اور عالمی شخصیات کے ساتھ شرکت نے یہ پیغام دیا کہ پنجاب کے اقدامات صرف داخلی سطح کے نہیں بلکہ عالمی سطح پر قابلِ اعتراف ہیں۔ یہ مضبوط اقدام صوبے کی قیادت کے ماحول دوست اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے میں معاون ثابت ہوا۔

‎مریم نواز کی قیادت اور ماحول دوست وژن کو بین الاقوامی حلقوں میں سراہا گیا اور انہیں ماحولیاتی تبدیلی کیلئے فعال رہنما کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس کا اثر نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کی ماحولیاتی پالیسی کو عالمی سطح پر مثبت پہچان دلانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ مریم نواز کا یہ دورہ یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ ایک صوبائی وزیراعلیٰ کے اقدامات عالمی ماحولیاتی ایجنڈے میں اہم مقام رکھ سکتے ہیں‘ اور صوبے کی ترقی میں عالمی شراکت داری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ یہ دورہ سیاسی اور سفارتی نقطہ نظر کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ عالمی سطح پر شناخت اور تعاون کے ذریعے مقامی منصوبے مستحکم بنیادیں حاصل کر سکتے ہیں۔

‎یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ کچھ حلقوں نے اس دورے کے حوالے سے شفافیت اور اخراجات پر سوالات اٹھائے۔ مثلاََ وفد کے حجم‘ اخراجات اور طیارے یا پروٹوکول کی تفصیلات واضح نہیں کی گئیں۔ اس تنقید نے مریم نواز کے دورۂ جاپان پر ہونے والی تنقید کی بھی یاد دلا دی، جب اس دورے میں ان کے بعض اہلِ خانہ یا دوستوں کی شمولیت پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ تاہم یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ان سوالات کے تناظر میں دورے کے مثبت نتائج،عالمی شراکت داری اور ماحولیات کے ایجنڈے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ توازن دیکھنا ضروری ہے کہ شفافیت کے ساتھ ساتھ پائیدار ترقی اور عالمی پہچان بھی قائم ہو۔

‎جہاں تک اس دورے کی کامیابی کا تعلق ہے تو اس دورے کی حقیقی کامیابی کا تعین اس وقت ہو گا جب مریم نواز کے پیش کردہ منصوبے صوبے میں عملی طور پر نافذ ہوں گے۔ان منصوبوں کیلئے بین الاقوامی تعاون حاصل ہو سکے گا اور پنجاب میں ماحولیاتی تبدیلی کے اقدامات مستقل بنیادوں پر جاری رہیں گے۔ اگر ای موبلٹی،ویسٹ مینجمنٹ، جنگلی حیات اور جدید شہری منصوبے زمین پر عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ دورہ ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو گا۔ مزید اہم یہ کہ یہ دورہ صرف مریم نواز یا پنجاب کیلئے ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے ماحولیاتی شعور اور پائیدار ترقی کیلئے ایک مضبوط پیغام ہے۔ عالمی سطح پر اپنی ماحولیاتی شناخت قائم کرنا،ماحولیاتی تحفظ کیلئے عالمی فنڈنگ کے حصول کے نئے مواقع پیدا کرنا اور بین الاقوامی شراکت داری قائم کرنا، یہ سب اس دورے کی اہم کامیابیاں ہیں۔

تازہ ترین