کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے 3 سالہ اولیور نے منچسٹر میں ڈاکٹروں کو حیران کر دیا، وہ ہنٹر سنڈروم کے مریض کے طور پر دنیا میں پہلی بار جین تھراپی حاصل کرنے والا بچہ بن گیا۔
اولیور کو MPSII یا ہنٹر سنڈروم لاحق تھا، یہ ایک نایاب موروثی مرض ہے جو جسم اور دماغ دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے اس مرض کی شدید شکل کو اکثر چائلڈ ہڈ ڈیمنشیا کہا جاتا ہے اور بیشتر مریض اپنی نوعمری سے آگے زندہ نہیں رہ پاتے۔
اولیور کے والدین نے بتایا کہ دونوں بیٹوں میں اس مرض کی تشخیص ایک سخت ترین جھٹکا تھا، اولیور کا بڑا بھائی اسکائلر بھی اسی بیماری کا شکار ہے، مگر ابتدا میں اس کی علامات کو کووِڈ کے دور میں پیدا ہونے کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے پہلی بار دسمبر 2024 میں اولیور اور اس کے والد سے ملاقات کی تھی، جب مانچسٹر کے اسپتال میں ڈاکٹروں نے اس کے خون سے اسٹیم سیلز نکالنے کا عمل شروع کیا تھا۔
اس سے پہلے علاج کے لیے صرف ایک ہی دوا موجود تھی، جس کی سالانہ قیمت تقریباً 3 لاکھ پاؤنڈ تھی، لیکن وہ دماغ تک نہیں پہنچ پاتی تھی، جس کے باعث ذہنی تنزلی رک نہیں پاتی تھی۔
اولیور کے اسٹیم سیلز لندن کے گریٹ اورمنڈ اسٹریٹ اسپتال بھیجے گئے جہاں ان میں صحیح IDS جین شامل کیا گیا تاکہ جسم دوبارہ مطلوبہ انزائم پیدا کر سکے۔
چند ماہ بعد ان تبدیل شدہ خلیوں کو واپس اولیور کے جسم میں منتقل کیا گیا، چھوٹے سے انفیوژن بیگ میں موجود 12 کروڑ سے زیادہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خلیے اس کے جسم میں داخل کیے گئے، ایک گھنٹے بعد دوسرا ڈوز بھی دے دیا گیا اور یوں چند منٹوں کا یہ عمل اس کی زندگی کا رخ بدل گیا۔
ایک سال بعد اولیور کی نشوونما عام بچوں کی طرح ہونے لگی ہے، کلینیکل ٹرائل کی سربراہی کرنے والے پروفیسر سائمن جونز کہتے ہیں کہ میں نے 20 سال سے ایسے کسی بچے کا انتظار کیا ہے، اولیور کی بہتری ناقابلِ یقین ہے۔
اولیور دنیا کے ان پانچ بچوں میں سے پہلا ہے جنہیں یہ تھراپی دی گئی ہے اور اس کی کامیابی دنیا بھر کے متاثرہ خاندانوں کے لیے امید بن رہی ہے۔