ماہرینِ صحت و غذائیت کا کہنا ہے کہ روزانہ 20 سے 30 گرام بادام یعنی تقریباً 15 سے 20 بادام کھانے سے جسم میں ایل ڈی ایل یعنی خراب کولیسٹرول میں کمی آ سکتی ہے جبکہ اچھے کولیسٹرول ایچ ڈی ایل کی سطح برقرار رہتی ہے۔
ویتنام کے تام آنہ جنرل اسپتال کے غذائی ماہر ڈاکٹر ڈاؤ تھی ین تھوئی کا کہنا ہے کہ بادام میں حل پزیر فائبر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو آنتوں میں کولیسٹرول کے جذب ہونے کو کم کرتا ہے، جب یہ فائبر نظامِ ہاضمہ میں جیل کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ کولیسٹرول اور صفراوی تیزاب بھی باہر خارج ہو جاتے ہیں، اس کے بعد جسم نئے صفراوی تیزاب بنانے کےلیے گردش کرتے ہوئے کولیسٹرول استعمال کرتا ہے جس سے برا کولیسٹرول کم ہونے میں مدد ملتی ہے۔
ان کے مطابق بادام میں موجود وٹامن ای اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس آکسیڈیٹیو اسٹریس اور دائمی سوزش کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں جو خون میں چکنائی کی خرابی اور دل کی بیماریوں سے جڑے اہم عوامل ہیں۔
بادام میں موجود صحت بخش چکنائیاں یعنی مونو سیچوریٹڈ اور پولی سیچوریٹڈ فیٹس خلیوں کی دیواروں کو مضبوط کرتی ہیں اور خون میں شوگر کے کنٹرول میں بھی مدد دیتی ہیں جو ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جنہیں لپڈز کی خرابی یا پری ذیابطیس کا مسئلہ ہو۔
ڈاکٹر تھوئی نے مشورہ دیا ہے کہ بادام کے ساتھ ساتھ پتوں والی سبزیاں، چربی والی مچھلی اور اناج پر مبنی غذاؤں کا استعمال بھی بڑھایا جائے تاکہ خون میں موجود چکنائی کی سطح بہتر ہو سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ بادام صحت مند اسنیک کے طور پر کھائے جا سکتے ہیں، یہ دہی اور سلاد کے ساتھ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں اور طویل توانائی فراہم کرتے ہیں جس سے میٹھی چیزیں کھانے کی خواہش کم ہوتی ہے اور یوں وزن برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تاہم ڈاکٹر تھوئی نے یہ بھی بتایا ہے کہ بادام کیلوریز سے بھرپور ہوتے ہیں، اس لیے وزن پر نظر رکھنے والے افراد یا دل کے مریضوں کو مقدار کا خاص خیال رکھنا چاہیے تاکہ زیادہ کیلوریز جسم میں نہ جائیں۔
ان کے مطابق باقاعدہ ورزش، مناسب نیند اور چینی و مضر چکنائیوں کا کم استعمال بھی خون میں لپڈز کے توازن کو بہتر بنانے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
ڈاکٹر تھوئی نے مشورہ دیا ہے کہ جن افراد میں کولیسٹرول زیادہ ہو، وزن تیزی سے بڑھ رہا ہو، تھکن مستقل رہتی ہو یا خاندان میں دل کی بیماریوں کی تاریخ ہو وہ ماہرین سے مشورہ کریں تاکہ فرداً فرداً ان کا جائزہ لے کر مناسب غذائی منصوبہ تیار کیا جا سکے۔