مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
نام محمد ﷺ کی کمالات و برکات ہی لاجواب ہیں، پیارے مدنی کریم ﷺ کا نام مبارک فرش پر محمد اور عرش پر احمد ہے، اسم محمد ﷺکی ایسی برکات ہیں کہ جب لفظ محمد پکارا جا تا ہے تو لب بھی ایک دوسرے کو چوم لیتے ہیں، حضرت جبیر بن مطعمؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا، آپﷺ فرمارہے تھے ’’میرے (بہت سے) نام ہیں۔ میں محمدؐ ہوں۔
میں احمدؐ ہوں۔ میں ماحی(مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ سب لوگ (روز قیامت) میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے۔ میں عاقب (پیچھے آنے والا) ہوں کہ جس کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا‘‘۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہﷺ کے اسمائے گرامی میں سے ہر ایک اسم کے اندر معانی ومفاہیم کا ایک جہاں آباد ہے، صرف نام نامی اسم گرامی ’’محمد‘‘ ﷺکا ایک اعجاز ملاحظہ فرمائیں ’’ محمد ﷺ ‘‘ کا معنی ہے جس ذات کی بے حد تعریف کی گئی ہو۔ مشرکین مکہ جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔
آپ ﷺ کو جب پکارتے تو انہیں مجبوراً ’’محمدﷺ‘‘ کہنا پڑتا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مشورہ کیا کہ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ ہم تو اپنے بُتوں کے دشمن کو بُرا بھلاکہنا چاہتے ہیں لیکن جب بلاتے ہیں تو خود بخود ان کی تعریف ہوجاتی ہے۔ کچھ بدبختوں کے مشورے سے طے پایا کہ آئندہ ہم محمدؐ کے بجائے (نعوذباللہ) ’’مذمم‘‘ (جس کی مذمت کی گئی ہو) کہا کریں گے۔
صحابۂ کرام ؓنے یہ سنا تو انہیں بہت صدمہ پہنچا۔ مکہ میں مشکلات اور آزمائشوں کا دور تھا۔ صحابۂ کرام ؓ نبی رحمت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری بات بتائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم حیران نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قریش کے سب وشتم سے کیسے محفوظ رکھا ہے؟ وہ لوگ تو مذمم کو برا کہتے ہیں جب کہ میرا نام تو محمدؐ ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
اس نام مبارک کا کمال دیکھیں کہ کائنات میں جس ہستی کی اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ تعریف ومنقبت بیان کی گئی، وہ آپ ﷺ ہی کی ذات ہے۔قرآن مجید میں آپ ﷺ کی تعریف وتحسین ہے جو ڈیڑھ ہزار برس سے مسلسل پڑھا جارہا ہے اور قیامت تک اس کی تلاوت ہوتی رہے گی۔
ہر دور میں ہر طرح کے انسانوں نے ہر طرح آپ ﷺکی تعریف کی۔ نثر ہو یا نظم، زبان ہو یا قلم، ہر زمانے کے خوش بخت لوگ آپﷺ کی مدح وستائش میں مصروف رہے۔ آج بھی جزائر شرق الہند سے بر اعظم امریکہ تک اس تسلسل سے اذان میں آپ ﷺ کی رسالت کا اقرار واعلان ہوتا ہے کہ چوبیس گھنٹے کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جس میں مشرق ومغرب شمال وجنوب کہیں نہ کہیں آپﷺ کی عظمت کا ترانہ، نہ گونج رہا ہو۔
علّامہ شرف الدین بوصیریؒ صاحب ’’قصیدہ بردہ‘‘ کیا خوب فرماتے ہیں: آپ ﷺ اپنی خوبیوں اور کمالات میں یکتا ہیں اور ان میں آپ ﷺ کا کوئی شریک نہیں۔ آپ ﷺکا حسن وکمال صرف آپ ﷺ ہی میں ہے جسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی تعریف کی کوئی حد نہیں کہ کوئی انسان اپنے منہ سے اس کا مکمل اظہار کرسکے۔
آپ ﷺ کے بارے میں ہم یہی جانتے ہیں کہ آپ ﷺ بشر ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر اور افضل)حلقہ بگوشان اسلام کے لیے تو آپ ﷺ کی تعریف ہمیشہ ہی باعث سکون وقرار رہی ہے‘ لیکن نام ’’محمد‘‘ ﷺ نے اپنا اعجاز غیروں سے بھی ایسا منوایا کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔
ابوطالب کہتے ہیں: ترجمہ۔(تم نے مجھے اسلام کی طرف بلایا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ تم میرے خیر خواہ ہو، بے شک تم نے سچ کہا اور تم تو امین بھی ہو۔ تم نے ایک ایسا دین پیش کیا ہے جو بلاشک وشبہ ساری کائنات کے مذاہب سے بہتر اور افضل ہے) پھر ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھیں کہ محمدﷺ کا معنی ہے ’’جس ذات کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو‘‘ جب آپ ﷺ قابل تعریف ہیں تو آپﷺ کی ہر حرکت وادا، آپ ﷺ کا قول وعمل، آپ ﷺکی شکل وشباہت، آپ ﷺ کا لباس اور سامان زینت، آپﷺ کی معیشت، ومعاشرت، آپ ﷺ کی صلح وجنگ اور آپﷺ کی طرف صحیح طور پر منسوب ہر بات قابل تعریف ٹھہرے گی۔ظاہر سی بات ہے کہ جو ذات قابل تعریف ہوگی اس کا ہر وصف باعث حسن وجمال اور وجہ خیر وکمال ہوگا۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ؐ کی ذات تو حمد وستائش کی مستحق ہو اور آپ ﷺکی سنتوں اور طریقوں پر حرف اعتراض اٹھایا جاسکے۔ اسی لیے جب بھی کسی سنّت مبارکہ کے بارے میں سوال ہوگا کہ یہ کیوں اور کیسے ہے؟ تو اس کا ایک ہی پہلا اور آخری جواب ہوگا کہ یہ سرکار دوعالم ﷺ کا طریقہ ہے اور بس! اس کے علاوہ ہر مصلحت وحکمت محض عارضی اور ناقص قرار پائے گی۔ آپ ﷺکی ذات مبارکہ ہر خوبی کا مبداء و منبع اور آپ ﷺکی سنّت مطہرہ ہر کمال کی انتہاء اور معراج ہے۔
بہت سے والدین کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ جب ہم اپنے بیٹے کا نام’’محمد‘ ؐ‘ رکھیں گے اور پھر کسی موقع پر ڈانٹ ڈپٹ سے کام لینا پڑے تو ہم اس نام کو لے کر کیسے برا بھلا کہہ سکتے ہیں؟ بلاشبہ، یہ شبہ بھی اہلِ ایمان کی سرکارِ دو عالم ﷺ سے محبت کی نشانی ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ محمدؐ نام رکھنے کی اجازت خود پیارے آقا ﷺ سے صحیح احادیث میں ثابت ہے۔
صحیح بخاری میں کئی مرتبہ یہ حدیث پاک آتی ہے: لوگو! میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت ابوالقاسم ساتھ اختیار نہ کرو۔ آپ میں سے اکثر نے دعاؤں کی مشہور کتاب حصن حصین کا نام تو سنا ہوگا اسی طرح تجوید کا رسالہ المقدمۃ الجزریۃ بھی بہت مقبول ہے۔
ان دونوں کے مصنف امام جزری بھی ایسے ہی خوش قسمت افراد میں سے تھے۔ اصل نام ’’محمد‘‘ رکھنے کے ساتھ اگر کوئی لقب وغیر ہ بھی رکھ لیا جائے تو امید ہے کہ پھر بھی اس پاک نام کی وہ برکات جو علماء نے لکھی ہیں نصیب ہوتی رہیں گی۔ تو ہر وہ آدمی جس کا نام ’’محمد‘‘ ہوگا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اسے کہا جارہا ہے وہ (جنت میں جانے کے لیے) کھڑا ہوجائے گا تو حضرت محمدﷺ کے اِکرام میں انہیں جنت میں جانے سے نہیں روکا جائے گا۔
حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ سے سنا ہے کہ جس گھر میں ’’محمد‘‘ نام والا ہو تو اس کی وجہ سے انہیں اور ان کے پڑوسیوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ بخاری شریف کی صحیح روایت کے مطابق یہ نام خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے محمد نام رکھنے کی خود اجازت عطا فرمائی ہے(صحیح مسلم ، (1682/3) کتاب الآداب، ط: دار احیاء التراث العربی)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے ’’سیرۃ المصطفیٰ ‘‘میں یمن کے بادشاہ تبع حمیری کے اشعار نقل کیے ہیں، ترجمہ: وہ (فلاں شخص) مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اس آبادی (یثر ب موجودہ نام مدینہ) سے دور چلا جاؤں، جو محمد ﷺ کی وجہ سے محفوظ رکھی گئی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ احمد (حضرت محمد ﷺ) اس اللہ کے رسول ہیں ﷺجن پر جان لٹائی جاتی ہے۔
امام طبرانی نے حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی کے نگینے پر یہ درج تھا: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ ۔ اللہ کریم ہم سب کو پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے ایسا گہرا اور والہانہ تعلق نصیب فرمائے کہ زندگی بھر اطاعت رسول ﷺ کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کواسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)