• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج نیو یارک ٹائمز کے آرکائیو میں جھانکا تو حیرت نے مجھے آ لیا۔انیس سو پچیس کے لوگوں نے جو دنیا دیکھی تھی، اس کا بیشتر حصہ آج ہماری روزمرہ حقیقت ہے، اور باقی اب بھی نیم خواب، نیم حقیقت کی طرح فضا میں تیر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی صدی بعد کے پاکستان کا ایک تخلیقی نوشتہ لکھ دوں۔ فیصلہ تو بہرحال وقت ہی کرے گا، مگر خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔آئیے اکیس سو پچیس کے پاکستان کی طرف چلتے ہیں، جہاں مستقبل کی سانسیں ماضی کی دھڑکنوں میں حل ہو کر ایک نیا سُر بناتی ہیں۔اس دور کا پاکستان روشنیوں اور سایوں کا ایک ایسا امتزاج ہوگا ۔قوم دو سمتوں میں ایک ساتھ بڑھ رہی ہوگی۔آگے بھی، اور پیچھے بھی۔ کہیں دھات اور شیشے کے جنگل آسمان سے مکالمہ کرتے ہونگے، عمارتیں یوں بلند کہ جیسے خدا کی انگلی چھونے کیلئے بنی ہوں۔ ان کی چھتوں پر نصب شمسی پتے سورج کی تمازت کو نگل کر بجلی بناتے ہوں گے، جیسے روشنی خود اس ملک کیلئے کام کر رہی ہو۔ مگر انہی فلک بوس ڈھانچوں کے قدموں میں کچھ پرانے محلے بھی ہوں گے۔بوسیدہ، مگر وفادار۔جہاں مٹی کی وہی خوشبو سانس لے رہی ہوگی جو 1947 کے قافلوں کے ساتھ چلی تھی۔ یوں محسوس ہوگا جیسے پاکستان ایک ہی بدن میں دو روحیں سموئے کھڑا ہے ایک مستقبل کی آگ، دوسری ماضی کی راکھ۔شہر تو حیرت سے بھی آگے نکل چکے ہوں گے۔روشنیوں سے بُنا ہواکراچی سمندر کے کنارے کھڑا آسمان سے زیادہ جگمگاتا ہوگا۔ لاہور نیم خودکار درختوں کی سرگم میں ڈوبا ہوگا، جہاں رہائشی یونٹس بادلوں کی سطح پر تیر رہے ہوں گے، ٹریفک کسی خاموش ذہانت کے اشاروں پر بہتی ہوگی۔ اسلام آباد ایک ذہین مخلوق میں بدل چکا ہوگا۔نہ شہر، نہ نظام۔بلکہ ایک دھڑکتا دماغ، جو اے آئی کے سہارے اپنے ہر سانس کی رفتار خود طے کرے گا۔پشاور اور راولپنڈی کی پرانی دیواریں اب بھی اسی طرح ایستادہ ہوں گی، مگر ان میں نصب سینسر ہر گزرنے والے لمحے کو قید کر رہے ہونگے۔

مگر سب سے بڑی تبدیلی انسانوں میں ہوگی۔ روایتی خاندانوں کی جگہ ذہین، مختصر، ڈیجیٹل گھرانے لے چکے ہوں گے، جن میں اقدار کے درخت اب سخت محنت سے اگتے ہوں گے۔ نوجوان ایک ہی وقت میں کئی جہانوں کے مکین ہوں گے۔ایک جسمانی نوکری، دو ڈیجیٹل ہنر، اور ایک خواب جو کہیں ذہن کے کونے میں بیٹھا مسلسل دھڑکتا رہے گا۔ گاؤں کے بچے عالمی کلاس رومز میں بیٹھ کر ایسے سوال پوچھ رہے ہوں گے جن سے کبھی آکسفورڈ بھی ہچکچا جاتا تھا، مگر شاید وہی بچہ شام کے وقت کئی میل دور سے پانی بھر کر واپس آ رہا ہوگا۔ترقی اور پسماندگی کا یہ متضاد رقص پاکستان کی فضا میں مسلسل گونجتا رہے گا۔ریاست کے ستون۔عدالت، پولیس، حکومت۔اپنی اصل شکل کھو چکے ہوں گے۔ عدالتیں ثانیوں میں فیصلے سنا دیں گی، مگر انہی فیصلوں میں انسان کی بو کم اور ڈیٹا کی مہک زیادہ ہوگی۔ ڈرونز آسمان کی آنکھ بن چکے ہوں گے، اور نگرانی کی حدیں شہری آزادیوں کے چہروں پر باریک دراڑیں ڈال رہی ہوں گی۔ قانون کے کمرے شاید خالی ہوں، مگر لوگوں کے دلوں میں ایک انجانا خوف آباد ہوگا۔یہ احساس کہ انصاف تو ملا، مگر کیا انسان ملا؟

سب سے بڑا امتحان پانی ہوگا۔اور شاید سب سے بڑی شکست یا سب سے بڑی فتح بھی۔ دریاؤں نے اپنے راستے بدل لیے ہوں گے، سندھ کے کئی علاقے ریت کے لبادے اوڑھ چکے ہوں گے، اور شمال میں پگھلتی برف نئے دریاؤں کو جنم دے رہی ہوگی۔ پاکستان اگر وقت پر جاگ گیا تو یہ خطہ دوبارہ زرخیزی کی داستان لکھ سکتا ہے؛ اور اگر نہ جاگا تو پانی کی کمی اس قوم کی رگوں میں ایک ایسا سناٹا بھر دے گی جو نسلوں تک گونجتا رہے گا۔معیشت کی تصویر بھی دو حصوں میں منقسم ہوگی۔ کچھ شہر اتنے امیر ہوں گے کہ دنیا انہیں مستقبل کے دبئی اور سنگاپور کہے گی۔روشنیوں سے بھرپور، مقدروں کو بدلنے والے۔ مگر انہی روشنیوں کے کنارے کچھ تاریک علاقے ہوں گے، جہاں لوگ ترقی کو اسکرین پر تو دیکھتے ہوں گے، مگر چھونے کی طاقت نہ رکھتے ہوں گے۔ پاکستان یا تو ٹریلین ڈالر معیشت بن کر دنیا کو حیران کر دے گا، یا پھر قرضوں کے سیمابی جال میں پھنسا ہوگا، جہاں پالیسی اب انسان نہیں بلکہ الگورتھم لکھیں گے۔دفاعی طاقت زمین سے اٹھ کر آسمان اور خلا میں پھیل چکی ہوگی۔ ڈرون فوجیں، سیٹلائٹ محافظ، اے آئی جنگی فیصلے۔یہ سب پاکستان کی بقا کے حصار ہوں گے۔ مگر اس حصار کے بیچ میں سوال زندہ رہے گا ریاست مضبوط ہے یا صرف اسلحہ؟۔کیونکہ تاریخ بتاتی ہے۔جہاں عدل مر جاتا ہے، وہاں طاقت محض شور رہ جاتی ہے۔ ثقافت کا چہرہ خیرہ کر دینے والا ہوگا۔ موسیقی ہوا میں تیرے گی، شاعری روشنی میں سانس لے گی، فلمیں ذہن کے اندر چلیں گی، مگر پھر بھی کسی پرانی بیٹھک میں ایک شاعر کاغذ پر جھکا ہوگا، الفاظ کی تلاش میں۔ کیونکہ کچھ خوبیاں وقت کے گزرنے سے نہیں مرتیں، وہ صرف رخ بدلتی ہیں۔ اردو ایک تیز، شفاف، عالمی زبان بن چکی ہوگی، اور خطے کی زبانیں اپنی بقا اور شناخت کی جنگ ایک نئی شدت سے لڑ رہی ہوں گی۔اور آخر میں بھی وہی سوال باقی رہیگا۔ جو 1947 ء میں تھا، جو آج بھی ہے، اور جو 2125ء میں بھی پاکستان کے دل میں دھڑکتا رہے گا کہ یہ ملک کتنی قوت رکھتا ہے، اور کتنی کمزوری؟۔ یہی سوال پاکستان کی قسمت بھی ہے اور اس کا کرشمہ بھی۔ اکیس سو پچیس کا پاکستان ایک طلسم ہوگا۔ حیرت، خوف، روشنی اور اندھیرے سے بنا ہوا۔مگر اس طلسم میں ایک لافانی حقیقت چھپی ہوگی یہ قوم آخری سانس تک نہیں ہارتی۔یہ چلتی رہتی ہے۔یہ لڑتی رہتی ہے۔اور یہی اس اس کا معجزہ ہے۔

تازہ ترین