برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی اور ریفارم یو کے نے ایکویلیٹی اینڈ ہیومن رائٹس کمیشن (EHRC) کی نئی چیئرپرسن میری این اسٹیفنسن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے کہا ہے کہ تارکینِ وطن کو منفی اور خطرناک انداز میں پیش کرنا برطانیہ کے لیے نقصان دہ ہے۔
میری این اسٹیفنسن نے رواں ماہ کے آغاز میں ای ایچ آر سی کی سربراہی سنبھالی ہے، انہوں نے ایک انٹرویو میں تارکینِ وطن سے متعلق زبان اور بیانیے میں احتیاط برتنے کی اپیل کی تھی۔
یہ انٹرویو گزشتہ شب شائع ہوا تھا جس میں ان کے خیالات کا مرکز زیادہ تر یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق (ECHR) تھا، تاہم امیگریشن سے متعلق ان کے ریمارکس نے سیاسی تنازع کو جنم دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ نہایت ضروری ہے کہ انسانی حقوق پر گفتگو دیانت داری کے ساتھ کی جائے اور یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ تارکینِ وطن کو شیطان بنا کر پیش کرنا یا یہ تاثر دینا کہ ہجرت ملک کے لیے بڑے خطرات پیدا کر رہی ہے، ناصرف برطانیہ آنے والے مہاجرین بلکہ نسلی اقلیتی برطانوی شہریوں کی زندگیوں کو بھی انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔
میری این اسٹیفنسن نے واضح طور پر کسی فرد یا جماعت کا نام نہیں لیا، تاہم حالیہ برسوں میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ دائیں بازو کے میڈیا، ریفارم یو کے اور کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے تارکینِ وطن کے خلاف سخت اور منفی بیانات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ان بیانات میں اکثر ہجرت کو جرائم سے جوڑا جاتا ہے، جبکہ ناقدین کے مطابق اس حوالے سے پیش کیے جانے والے شواہد جزوی، متنازع یا بعض اوقات سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔
یہ رجحان خاص طور پر اس وقت مزید نمایاں ہوا جب کنزرویٹو پارٹی انتخابی شکست کے بعد رشی سونک کی جگہ کیمی بیڈینوچ نے پارٹی قیادت سنبھالی۔
گزشتہ ہفتے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد سے متعلق حکومتی حکمتِ عملی کے اجراء پر ردِعمل دیتے ہوئے کیمی بیڈینوچ نے یہ تاثر دیا تھا کہ خواتین کو سب سے بڑا خطرہ برطانوی مردوں سے نہیں بلکہ تارکینِ وطن سے لاحق ہے، جس پر بھی شدید بحث ہوئی۔
ادھر پیر کے روز برطانیہ کے بعض میڈیا نے میری این اسٹیفنسن کے بیانات کو نمایاں طور پر شائع کیا۔
رپورٹ میں ریفارم یو کے کے سربراہ نائیجل فراج کا بیان بھی شامل تھا، جنہوں نے کہا کہ ریفارم کا مؤقف ہے کہ دہشت گردوں، زیادتی کرنے والوں اور سنگین غیر ملکی مجرموں کو ملک بدر کیا جانا چاہیے، اکثریت اس بات سے اتفاق کرے گی کہ ہمیں برطانوی عوام کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل سے ہو۔
اس سے بھی سخت ردِعمل کنزرویٹو پارٹی کے شیڈو ہوم سیکریٹری کرس فلپ کی جانب سے سامنے آیا، جنہوں نے کہا کہ ایک بار پھر بائیں بازو کی جانب سے بڑے پیمانے پر اور غیر قانونی امیگریشن کی مخالفت کرنے والوں کو نسل پرست ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بغیر انضمام کے بڑے پیمانے پر ہجرت نے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے، غیر ملکی شہریوں کی جانب سے جنسی جرائم میں 62 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ غیر ملکی مجرم اور غیر قانونی تارکینِ وطن انسانی حقوق، جدید غلامی اور پناہ کے قوانین کا غلط استعمال کر کے برطانیہ میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ سب بند ہونا چاہیے۔
ان کے بقول یہ بالکل غلط ہے کہ لیبر کی نئی انسانی حقوق سربراہ بڑے پیمانے پر ہجرت اور غیر ملکی شہریوں کی جانب سے کیے گئے جرائم، بشمول حالیہ جنسی حملوں پر جائز خدشات کو نظرانداز کر رہی ہیں۔
میری این اسٹیفنسن کو لیبر حکومت نے ای ایچ آر سی کی چیئرپرسن مقرر کیا ہے، جہاں انہوں نے لیڈی فالکنر کی جگہ لی ہے، جنہیں سابق کنزرویٹو حکومت نے تعینات کیا تھا۔
اس سے قبل میری این اسٹیفنسن ویمنز بجٹ گروپ کی سربراہ رہ چکی ہیں، جو خواتین کے حقوق اور معاشی پالیسی پر کام کرنے والا ایک فیمینسٹ تھنک ٹینک ہے۔