اگر آپ مجموعی طور پر کراچی کی بشمول ’لیاری‘ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس طرح اس شہر کے’ سیاسی تشخص‘ کو مسخ کیا گیا جو شہر اپوزیشن کی تحریکوں کا محور ہوتا تھا اسکی پہچان ’کرمنلز‘ اور ’’گینگ وار‘بنادی گئی ۔ جرم ، سیاست اور ریاست کا ایسا ملاپ کہ شہر ہی ’ غیر سیاسی‘ ہوگیا ۔یوں جمہوری جدوجہد کا مرکز ہی ختم ہوگیا تو تحریکیں کہاں سے جنم لیں گی۔ لہٰذا ’ لیاری‘ کی کہانی رحمن ڈکیت یا عذیر بلوچ نہیں بلکہ وہ مزاحمتی آوازیں ہیں جنہوں نے کوڑے کھائے، پھانسی چڑھے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر کسی بھی’ منفی رجحان کا حصہ نہ بنیں۔ اسکے جواب میں ’لیاری ‘ کو ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، غیر معیاری تعلیم اور ناقص صحت کی سہولتیں ملیں جس پارٹی کیلئے انہوں نے1970سے لے کر آج تک قربانی کی تاریخ رقم کی اسی جماعت نے بدقسمتی سے2008 کے بعد علاقہ کو ’ عذیر‘‘ کے حوالے کردیا۔ اس کا جواب یا تو صدر آصف زرداری کے پاس ہے یا ان کے نامزد صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے، مگر شاید وہ ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھی جس نے نہ صرف غیر ضروری طور پر پہلی بار لیاری اور ایم کیو ایم کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا بلکہ خود پی پی پی کے سیاسی لوگوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اسکے بعد کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ جس علاقے سے پی پی پی کبھی نہیں ہاری جو بھٹو، بیگم بھٹو اور بے نظیر کی پہچان بنا وہاں سے بلاول بھٹو کا ہار گیا۔ اس لیے ’فلم نہ بنائیں ، لیاری کو بنائیں‘۔
جس’ لیاری کو میں جانتا ہوں وہاں جب پولیس کے چھاپے پڑتے تو گرفتاری مارشل لا کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی ہوتی تھی اور جو اسلحہ ضبط ہوتا وہ یا تومیکسم گورکی کی ’ماں ‘ نامی یاد گار کتاب یا مارکس کی ’ داس کیپٹل‘ ۔طلبہ سیاست میں خاص طور پر بائیں بازو کی سیاسی سوچ میں ’ اسٹڈی سرکل کی بڑی اہمیت رہی ہے اور ہمارے حکمرانوں کو کر منلز یا گینگ سے زیادہ ’خطرناک سیاسی کام ‘سے خوف رہتا ہے۔ جس علاقہ سے میر غوث بخش بزنجو،بے نظیر بھٹو اور دیگر نامور سیاست دانوں نے انتہائی ڈرامائی انداز میں گرفتاریاں ازخود دی ہوں وہاں ’گینگ وار‘ جیسے کردار لاکر بیٹھا دئیے گئے۔ اور یوں وہاں سے سیاسی سرگرمیوں کی ’ خبریں‘ کم اور ’ گینگ وار‘ کی زیادہ آنی شروع ہوگئیں۔ ایسے میں اگر بھارت اپنے کسی خاص مقاصدکیلئے رحمن ڈکیت یا چوہدری اسلم جیسے کرداروں پرفلم بناتا ہے اور خود ہمارے بہت سے ساتھی اپنے یوٹیوب چینل پر ان کرداروں پر ڈاکومنٹری یا فیچر کرتے ہیں تو حیرانی کی کیا بات ہے۔ معذرت کے ساتھ ہم نے تو خود ’کراچی‘ کو ’بمبئی‘ بنادیا چاہے وہ بھائی کی اصطلاح ہو یا انڈرورلڈ کی۔
لہٰذا اگر آج پی پی پی کے رہنما یا سندھ حکومت بھارت کوالزام دیتی ہےلیاری کو منفی انداز میں پیش کرنے کا تو ذرا خود بھی غور کرے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جیسے ’جان ریمبو‘ کو کس طرح لانچ کیا گیا اور مرزا کا بھی کیا قصور جب خود انکے بقول ،’’ مجھے جو ٹاسک آصف نے دیا میں نےوہی کیا، بعد میں رحمن ملک کے ذریعے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کردی تو میں نے استعفیٰ دے دیا‘‘۔ لیاری ہمیشہ سے سیاست ، ثقافت، کھیل وادب کا گڑھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے فٹبال اور باکسنگ جیسے کھیلوں کو کبھی ہمارے یہاں پذیرائی نہ ملی اور پھر کھلاڑیوں کو بے روزگاری کا سامنا کرناپڑا تو کچھ کھلاڑی ’گینگ وار‘ کا حصہ بن گئے اور پھر یوں بھی ہوا کہ پہلی بار 9/11کے بعد لیاری کے بہت سے نوجوانوں نے کالعدم مذہبی تنظیموں سے روابط قائم کرلیے۔ لیاری نے درجنوں نامور صحافی بھی پیدا کیے ماما صدیق بلوچ سے لے کر کاکا غلام علی تک یا ملتانی سے لے کر لطیف بلوچ تک بعض کی اولادیں آج بھی صحافت کی خدمت کررہی ہیں۔ انہی میں سے ایک بڑا کردار نادر شاہ عادل کا ہے۔ مجھے آج بھی ان کا وہ تاریخی جملہ ’گینگ وار‘ کے حوالے سے یاد ہے۔’’ مظہر یہ گینگ وار لیاری کے چار تھانوں کی پیداوار ہے۔یہ انہی لڑکوں، جن کو بعد میں گینگ کانام دیاگیا ،سےچرس اور ہیروئن فروخت کرواتے انکار پر مقدمات قائم کرتے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے لیاری سیاسی سے غیر سیاسی ہوگیا‘‘۔
شاہ جی کی موت کی کہانی بہت دردناک ہے مگر رمضان بلوچ کی طرح وہ لیاری کی ’ان کہی‘ یا ’اندرونی کہانی‘ کتابی شکل میں نہ لاسکے۔ان کتابوں کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ علاقہ پڑھے لکھے اورشعور رکھنے والوں کاعلاقہ ہےجہاں آپ کو کسی سطح پر تعصب نہیں ملے گا وہ یا تو ہرہفتے گدھا گاڑی کی ریس کرتے پائے جاتے یا سائیکل ، موٹر سائیکل ریس۔ لیاری کے ہوٹلوں کا بھی اپنا الگ کلچر ہے کراچی میں 80اور90 کے بدترین دور میں بھی جب پورا شہر بند ہوتا تویہ ہوٹل کھلے رہتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو لیاری کا اندازہ اس وقت ہوا جب وہ ایوب خان کی کابینہ میں وزیر اور کنونشن مسلم لیگ میں تھے۔ رمضان اپنی کتاب میں12ستمبر1962کو ہونے والےایک جلسےکا احوال لکھتے ہیں جو پولو گراؤنڈ میں ہوا جس میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف نے اسٹیج پر دھاوا بول دیاتھا۔ اس کے مرکزی کردار معراج محمد خان تھےمگر یہ کام بلوچ خواتین نے کیا جب وہ گلدستہ لے کر اسٹیج پر چڑھیں کیونکہ ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا،کنونشن لیگ والے انہیں اپنا حمایتی سمجھے انہوں نے پتھر مارنے شروع کردئیے۔ بھٹو نے ایوب کابینہ چھوڑ کر جب پی پی پی بنائی تو کراچی میں لیاری میں’ہارون‘ کو چیلنج کیا جن کے بڑوں نے لیاری بنایا تھا۔ مگربھٹو نے نہ صرف لیاری میں سیاست کی بلکہ جب وزیر اعظم بناتو لیاری کےہزاروں لوگوں کیلئے مڈل ایسٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کیے، پاسپورٹ اور ویزہ کا حصول آسان بنایا۔ لیاری نے پھر پلٹ کر نہیں دیکھا وہاں کے نوجوان یا تو بھٹو کے ساتھ رہے، بیگم بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ یا مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ بھی گئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بے نظیر بھٹو واحد سیاسی رہنما تھیں جنہوں نے اپنی شادی کا بڑا استقبالیہ لیاری میں رکھا۔ وہیں سے ’ جاں نثارانِ بے نظیر‘ نے18 اکتوبر، 2007 کو اپنی جانیں دے کر بی بی کو بچالیا ان میں دیگر علاقوں کے نوجوان بھی شامل تھے۔ یہ بات آج سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ان ’جاں نثاروں‘ کے بعد بی بی کی سیکورٹی کی ذمہ داری ذوالفقار مرزا سے رحمن ملک کو کیوں دے دی گئی تھی اور آج سے تین دن بعد ہم27دسمبر کو ان کی17ویں برسی منارہے ہیں۔
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کہ سوا