• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاسر پیرزادہ کا کالم پڑھ کر دل چاہا کہ اس سے محض اتفاق یا اختلاف نہ کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر گفتگو کی جائے۔ یہ وہ تحریر تھی جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، نہ شور کے ذریعے، نہ نعرے کے زور پر، بلکہ سوالوں کی خاموشی سے۔ یاسر بھائی، آپ جانتے ہیں کہ سائنس نے انسان کو ستاروں تک پہنچا دیا ہے، مگر اس تمام تر پیش رفت کے باوجود کچھ سوال ایسے ہیں جو آج بھی اس کے ہاتھ سے پھسلے ہوئے ہیں۔ سوال جو ضد نہیں کرتے، مگر پیچھا نہیں چھوڑتے۔سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کیسے پھیلی، مگر یہ نہیں جانتی کہ اس سے پہلے کیا تھا۔ وہ دماغ کے خلیوں کو گن لیتی ہے، ان کے درمیان برقی سگنلز کا نقشہ بنا لیتی ہے، مگر یہ نہیں بتا سکتی کہ سوچ کہاں سے جنم لیتی ہے، شعور کیسے بیدار ہوتا ہے، اور ’میں ہوں‘ کا احساس آخر کس دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے۔ وہ مادّے کو اس کی آخری اکائیوں تک توڑ دیتی ہے، مگر یہ سمجھ نہیں پاتی کہ زندگی پہلی بار بے جان مادّے میں کیسے جاگی۔ وقت، کائنات، وجود اور زندگی،یہ سب آج بھی ایسے دریچے ہیں جہاں سائنس ٹھہر کر خاموش ہو جاتی ہے، اور انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ جان لینے کے باوجود، بہت کچھ ایسا ہے جو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

پھر کوانٹم تھیوری ہے، جدید سائنس کی سب سے پراسرار اور سب سے بے چین کرنے والی شاخ۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ذرّات بیک وقت کئی حالتوں میں ہو سکتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتی کہ انہیں دیکھتے ہی ایک ہی حالت کیوں اختیار کرنی پڑتی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ دو ذرّات ایک بار جڑ جائیں تو فاصلہ ان کے تعلق کو ختم نہیں کرتا، چاہے وہ ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور کیوں نہ ہوں۔ اگر ایک ذرّے پر کوئی عمل کیا جائے تو دوسرا فوراً اس کے مطابق ردِعمل دیتا ہے، جیسے وہ دونوں ایک ہی وجود کے دو حصے ہوں۔ سائنس اس مظہر کو ’’دور سے عجیب اثر‘‘کہتی ہے، مگر اس کے پاس یہ بتانے کیلئے الفاظ نہیں کہ یہ ربط روشنی یا کسی طاقت کے سفر کے بغیر کیسے قائم رہتا ہے۔ شاید اسی حیرانی نے کچھ سائنس دانوں کو اسے گاڈ پارٹیکل جیسے استعاروں تک لے جانے پر مجبور کیا۔کائنات کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ چھو سکتے ہیں۔ سائنس دان اسے ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کہتے ہیں۔ یہی وہ غیر مرئی قوتیں ہیں جو کہکشاؤں کو بکھرنے سے روکتی ہیں، ستاروں کو ان کی جگہ تھامے رکھتی ہیں، جیسے پانی کے نیچے کی دھارا پتّوں کو بہا رہی ہو مگر آنکھ کو صرف سطح دکھائی دیتی ہو۔ سائنس جانتی ہے کہ یہ قوتیں موجود ہیں، مگر یہ نہیں جانتی کہ وہ اصل میں ہیں کیا اور کہاں سے آتی ہیں۔ یہی لاعلمی اس علم کی سب سے بڑی سچائی ہے۔

دماغ کے نیورون، ان کی ساخت، ان کے درمیان پیغام رسانی،یہ سب سائنس کی گرفت میں ہے۔ مگر خوشی، غم، خوف، محبت اور خودی کا احساس کہاں سے آتا ہے؟ یہ سوال آج بھی سائنس کے لیے ایک بند دروازہ ہے۔ وہ یہ بتا سکتی ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے، مگر یہ نہیں بتا سکتی کہ اندر سے ہمیں زندگی کیوں محسوس ہوتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علم اپنی حد کو پہچانتا ہے اور عاجزی اختیار کرتا ہے۔اسی طرح سائنس زندگی کے عمل کو تو سمجھا سکتی ہے،ڈی این اے، پروٹین، خلیوں کی تقسیم،مگر یہ نہیں بتا سکتی کہ پہلا زندہ خلیہ کہاں سے آیا۔ غیر زندہ مادّہ کیسے اچانک زندہ ہو گیا؟ یہ سوال آج بھی ایک معمہ ہے، اور شاید یہی معمہ سائنس کو مسلسل متحرک رکھتا ہے۔

سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ کائنات تقریباً تیرہ ارب اسی کروڑ سال پہلے بگ بینگ سے شروع ہوئی، مگر یہ نہیں بتاتی کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا، یا وقت خود کہاں سے آیا۔ یعنی وقت کے آغاز پر سائنس خاموش ہو جاتی ہے، اور یہی خاموشی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔کائنات کے قوانین اس قدر درست اور متوازن ہیں کہ زندگی ممکن ہو سکی۔ کچھ لوگ اسے محض اتفاق کہتے ہیں، اور کچھ اسے کسی تخلیق کار کی نشانی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس نے کبھی کسی خالق کے وجود سے انکار نہیں کیا۔ وہ صرف یہ کہتی ہے کہ وہ خدا کے وجود کو ثابت نہیں کر سکتی، مگر وہ اسے رد بھی نہیں کر سکتی۔ سائنس نے خدا کو رد کر دیا کہنا دراصل سائنس کی نہیں، اپنے تعصب کی ترجمانی ہے۔

یہ درست ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں خدا کے وجود سے انکار کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، مگر شاید اس کی اصل وجہ مذہب نہیں، مذہبی لوگوں کے اعمال ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کلیسا کا مفاد پرستی کیلئے ہم جنس پرستی جیسے معاملات پر موقف بدلنا ہو، یا مسلم دنیا میں مذہبی حلقوں کا غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونا،یہ سب مذہب نہیں، مذہب کا بوجھ ہیں۔ جب مذہب طاقت کا آلہ بن جائے تو انسان اس سے خوف زدہ ہو جاتا ہے، اور خوف اکثر انکار میں بدل جاتا ہے۔شاید اصل مسئلہ خدا یا سائنس کا نہیں، بلکہ انسان کا ہے۔ انسان جو جاننا چاہتا ہے، مگر ماننا نہیں چاہتا؛ جو سوال اٹھاتا ہے، مگر خاموشی سے گھبراتا ہے۔ یاسر بھائی، آپ کا کالم اسی خاموشی کی طرف اشارہ تھا،اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

تازہ ترین