ہر قوم کی تاریخ میں تاج وتخت، حق وباطل اور ظالم ومظلوم کی کشمکش رہی ہے مگر کبھی کبھی ایسا پچھتاواجنم لیتا ہے جس کا سالوں، دہائیوں تک مداوا نہیں ہوپاتا۔ سیاست میں خون کے دھبے شامل ہوجائیں تووہ دھلتے نہیں بلکہ بعض اوقات یہی خون، آسیب بن کر قوموں سے انتقام لیتا ہے ۔قومیں بے سکون ہوجاتی ہیں استحکام رخصت ہوجاتا ہے دائروں کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔14اپریل1979ءکو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک ایسا ہی سانحہ تھا جس پر ہمالیہ کے آنسوگرتے تو کسی نےنہ دیکھے مگر سچ یہ ہے کہ وہ دن اور آج کادن پاکستان اپنی آئینی اور جمہوری منزل سے کہیں کھو گیا ہے کبھی جمہوری ٹرین پٹری پر چڑھتی ہے تھوڑا سارینگتی ہے اور پھر سے کوئی دھماکہ ا سے اتار دیتا ہے یہ اس پھانسی کی بددعا ہے، خدائی قہر ہے یا پھرہماری اپنی بدنصیبی اور بے برکتی ہے؟
یونانی اور عالمی دیو مالائی کہانیوں میں دیوتاؤں کی دنیا کے واقعات میں مداخلت افسانوی اور تمثیلی ہے مگر بھٹو کی پھانسی کے اہم ترین کردار مولوی مشتاق حسین کے ماڈل ٹاؤن پارک میں جنازے کے موقع پر شہد کی مکھیوں کا حملہ تو اہل لاہور نے خو د کھلی آنکھوں سے دیکھا، اخبارات میں تصاویر شائع ہوئیں جنازے میں شریک تین یا چار افراد جاں بحق ہوگئے لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے مرحوم کی لاش کو بھی ان خونخوار مکھیوں نے نہ چھوڑا ۔مادہ پرستوں کے خیال میں یہ صرف اتفاقی واقعہ تھا۔ کہانیاں لکھنے والے اسے عبرت اور خدائی مداخلت قرار دیں یا پھر سرے سے اسے معمول قرار دیکر نظر انداز کردیں۔ الہیات اور روحانیت کے ماہر اسکی جو بھی تشریح کریں لیکن یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ یہ محیر العقول واقعہ، بھٹو کی پھانسی کے کرداروں کے انجام سے جڑا ہوا ہے اور مستقبل کا مورخ اس حیران کن واقعہ سے صرف نظر نہیں کرسکے گا۔
نہ ذوالفقار علی بھٹو فرشتہ تھے اور نہ ولی، مگر تاریخ نے انہیں درست اور انکے مخالفوں کو غلط ثابت کردیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، سراپا جمہوریت سراپا پاکستان اور سراپا پرامن جدوجہد تھیں۔ بھارتی نژاد امریکی مسلمان فرید ذکریا نے ایک انٹرویو میں مجھے کہا تھا کہ وہ عالم اسلام کی سب سے بڑی اور پاپولر لیڈر ہیں اسکی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان ملکوں میں صرف واحدپاکستان ہےجہاں الیکشن ہوئے اور اکثریت نے بے نظیر بھٹو کو پسند کیا اسلئے وہی مسلم دنیا کی سب سے پاپولر لیڈر ہیں۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کا بوجھ، قوم کے جمہوری مستقبل اور پرامن وپائیدار خوشحالی کیلئے ایک چیلنج ہے ۔بے نظیر بھٹو کا دن دہاڑے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں سر عام قتل، ریاست ، سیاست اور جمہوریت کیلئے ایک نیا پچھتاواہے جسکا بھٹو کی طرح مداوا کئی دہائیوں تک ممکن نہ ہوسکے گا۔ بھٹو کی پھانسی کے کرداروں کے انجام میں فضائی اور خدائی مداخلت دیکھی اور محسوس کی گئی۔ بے نظیر بھٹو کے قاتل بھی چن چن کر مارے گئے کوئی ڈرون میں اڑا اور کوئی کسی دھماکے میں عدالتیں سزا نہ سنا سکیں توکیا،خدائی عدالت نے ان کاحساب چکتا کردیا۔ اسامہ بن لادن ایمن الظواہری اوربیت اللّٰہ محسود کوانکے گھروں میں گھس کر امریکیوں کے ذریعے انجام تک پہنچایا۔ کچھ طاقتور، کچھ خفیہ ابھی باقی ہیں ان پر انگلی اٹھانا، مقدمہ چلانا یا سزا دینا ممکن نہیں مگر خون ناحق کا بدلہ لینے کا کائنات خود انتظام کرتی ہے۔
27دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی18ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش دعا میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ پہلے بھی کئی بار یہاں آتا رہا ہوں لیکن اس بار کافی وقفے کے بعد آنا ہوا تو کئی تبدیلیاں دیکھنے کوملیں۔ سکھر سے گڑھی خدا بخش جاتے ہوئے جگہ جگہ بھری ہوئی بسوں ویگنوں میں لوگوں کا جوش وخروش دیکھا۔ سب سے حیران کن اور دلچسپ بات یہ تھی کہ برسی میں جانیوالے 90 فیصد وہ نوجوان تھے جنہوں نے نہ بینظیر بھٹو کو دیکھا تھا اور نہ ان کیساتھ سیاست کی تھی10 سے8 فیصد وہ سینئر تھے جو بینظیر بھٹو کے کارکن اور ساتھی رہے ہونگے اور اب شاید قائم علی شاہ جیسے صرف 2 فیصد ایسے ہونگے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ سیاست کی ۔ نئے پپلئے جیالے وہ ٹوٹی جوتیوں والے اور پھٹے کپڑوں والے روایتی لوگ نہیں تھے انکی اکثریت بہترین لباس اور جدید فیشن کے جوتے پہنے ہوئے تھی اندازہ ہے کہ یہ وہ سندھ کی نئی مڈل کلاس ہے جو گزشتہ پندرہ بیس سال کی خوشحالی سے وجود میں آئی ہے پہلے سندھ میں جاگیر دار تھے یا ہاری مگر اب صرف سکھر میں ہی 8 یونیورسٹیاں ہیں سڑکوں کی تعمیر، صحت اور تعلیم میں بہتری سے ایک مڈل کلاس قائم ہوئی ہے ۔ گڑھی خدا بخش کے چاروں طرف کاریں ہی کاریں تھیں پیدل آنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اسٹیج پیپلز پارٹی کی جیالا روایت کا مظہر تھا کسی کیلئے کوئی کرسی نہ تھی آزاد کشمیر کا وزیر اعظم پنجاب، گلگت اور پختونخوا کے گورنر ، سندھ کا وزیر اعلیٰ اور اسکی ساری کابینہ فرش پر بیٹھی تھی بڑے بوڑھے دیوار کا سہارا لیکر بیٹھنے پر مجبور تھے یعنی ورکر، وزیر اور بڑے یا چھوٹے سب برابر نظر آئے۔ صدر زرداری کواب پارٹی ایک سرپرست اور بڑے کے طور پر لیتی ہے ، انکی تقریر بھی بڑوں والی تھی، مکمل غیر متنازعہ اور بڑوں کی طرح کی وعظ ونصیحت ،پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی تقریر بھی مصالحانہ تھی این ایف سی میں تبدیلی کی بجائے انہوں نے وفاق کا اضافی بوجھ اٹھانے کی پیشکش کی۔سندھ میں ایک نمایاں تبدیلی پیپلز پارٹی کے نامور لیڈروں کی اپنی اگلی نسل کو سیاسی وراثت کی کامیاب منتقلی ہے۔ سید خورشید شاہ اپنے داماد اور بھتیجے اویس قادر شاہ ، سید ناصر حسین شاہ اپنے بیٹے کمیل حیدر شاہ کو آگے لے آئے ہیں اسی طرح سید نوید قمر، شرجیل میمن اور منظور وسان بھی اپنے بیٹوں کو میدان میں اتار چکے ہیں۔
دیہی سندھ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہاں ترقی نہیں ہوئی یہ بالکل غلط تصور ہے سندھ میں بہترین تعلیمی ادارے ہیں صحت کی سہولتیں کئی جگہ پنجاب سے بھی بہتر ہیں سڑکوں کا معیار، قومی معیار سے بہتر ہے۔ ہر وزیر کو شکایت ہے کہ NHA یعنی وفاق کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں سکھر اور کراچی کے درمیان موٹر وے کو نہیں بنایا جارہا۔ سندھ کی ثقافت میں نمایاں بات اکثریت اور اقلیت کے بہترین تعلقات ہیں ہندو، مسلمانوں سے بھی زیادہ زور سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں کہ وہ خوشحال ، مطمئن اور معتبر ہیں۔ دیہی سندھ میںالبتہ نیا صوبہ بنانے کے حوالے سے شدید تحفظات موجود ہیں ۔آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے اختلافی نوٹ یہ ہے کہ اکثر محترمہ کی شہادت کو معمہ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ یہ قتل ایک کھلی کتاب اور ظاہری راز ہے ۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے سانحے پر اسکاٹ لینڈ یارڈ، دنیا کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ، آئی ایس آئی،آئی بی اوراسپیشل برانچ کی تفصیلی تحقیق وتفتیش موجود ہے۔ میری تحقیقی کتاب ’’ قاتل کون؟‘‘ میں ہر قاتل کانام، حلیہ ، تصویر اور اسکا قتل میں کردار سب کی تحقیق اور نشاندہی شامل ہے۔جان بوجھ کریا لاعلمی میں قتل کو معمہ بناکر لواحقین کو قاتل بنانے سے خون کا دھبہ کبھی نہیں مٹے گا جب تک اقوام متحدہ کمیشن رپورٹ میں نامزد ملوث اراکین پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا اس وقت تک ہم پچھتاوے سے مداوے کا سفر شروع نہیں کرسکیں گے۔ بینظیر کی 18ویں برسی پر جاتے ہوئے اس شعر نے ان کی یاد کو اس طرح سے تازہ کیا ۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم