• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحفظ پاکستان ایکٹ پر عملدرآمد کی عملی کوششیں نہیں کی گئی،ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ

راولپنڈی(نمائندہ جنگ)لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے تحفظ پاکستان ایکٹ2014ء کے حوالے سے قرار دیاہے کہ نظر آرہا ہے صرف خانہ پری کیلئے قانون سازی کی گئی،تحفظ پاکستان ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے کوئی عملی کوششیں نہیں کی گئی۔جس کا اظہار تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت بننے والی خصوصی عدالت راولپنڈی کے جج کی رپورٹ میں موجود ہے،رپورٹ  میں کہا گیا ہے کہ ان کو 2سال کے دوران عدالتی امور اور مقدمات کی سماعت کیلئے سیکرٹری قانون سے بار بار رابطے کے باوجود کوئی تربیت یافتہ عملہ ملا نہ ہی کورٹ روم دیا گیا۔بیٹھنے کیلئےایک کمرہ بھی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے تعاون باعث ملا،عدالت نے رپورٹ کونیشنل ایکشن پلان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے غیر سنجیدہ روئیے کا عکاس قرار دیتے ہوئے کہا  کہ عدالت عالیہ نے سیکرٹری داخلہ،سیکرٹری قانون و انصاف اور ڈی جی نیکٹا کو16اگست تک تفصیلی رپورٹ پیش کرنیکا حکم دیاہے،یہ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے،عدالت عالیہ نے یہ احکامات ننکانہ صاحب سے اغوا ہونے والے ایم پی اے  کے مقدمہ میں ایک ملزم ظفر علی کی درخواست ضمانت پر جاری کئے ہیں۔جس نے محمد الیاس صدیقی ایڈووکیٹ کے زریعے عدالت عالیہ سے رجوع کررکھا ہے،منگل کے روز دوران سماعت  جسٹس عبادالرحمن لودھی نے ایم پی اے رانا جمیل حسین سے پوچھا کہ کیا آپ کا تعلق ٹریثری بنچز سے ہے۔جس پر انہوں نے خاموشی اختیار کی تو عدالت عالیہ نے اردو میں پوچھا کہ کس پارٹی سے تعلق ہےجس پر رانا جمیل نے کہا کہ حکومتی پارٹی سے تعلق ہے۔عدالت عالیہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ آپ قانون ساز ادارے کے رکن ہیں۔آپ کو کوئی قانونی معاملات کا علم ہے۔تو رانا جمیل حسین نے کہا کہ ان کو قانون کے بارے میں کوئی سمجھ نہیں ان کو قانونی معاملات پر رائے کیلئے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔اس موقع پر رانا جمیل حسین نے کہا کہ ان کی سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ان کو دھمکیاں ملی ہوئی ہیں۔اس لئے زاتی حاضری سے استثنٰی دیا جائے۔جس پر جسٹس عبادالرحمن لودھی نے سوال کیا کہ پنجاب میں تحفظ فراہم کرنا کس کی زمہ داری ہے۔تو رانا جمیل نے کہا کہ پنجاب حکومت کی زمہ داری ہےجس پر عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ آپ پنجاب حکومت کا حصہ ہیں سیکورٹی پر استثنی کیلئے پنجاب حکومت سے کہیں۔وہ انتظام کرے گی اور آئندہ پیشی پر تشریف لائیں۔عدالت عالیہ نے  دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جوتحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل پاکستان تھے کو کہا کہ وہ چاہیں تو آئندہ پیشی پر پیش ہوسکتے ہیں۔سپیشل جج کی رپورٹ کے حوالے سے عدالت عالیہ نے سرکاری وکلاء سے استفسار کیا تو بتایا گیا کہ ایکٹ کی مدت ختم ہوچکی ہے۔اس کے تحت بننے والی عدالتیں غیر موثر ہوچکی ہیں۔جس پر عدالت عالیہ نے ان عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے مستقبل کے بارے میں دریافت کیا تو سرکاری وکلاء نے رائے ظاہر کی کہ شاید انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کو بھجوائے جائیں۔عدالت عالیہ نے کہا کہ اس بارے قانونی پوزیشن کیا ہے، مقدمات میں ملوث ملزمان کو ٹرائل کا حق ہے۔لیکن اس وقت تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت مقدمات میں ملوث ملزمان کیلئے نہ کوئی مجاز فورم ہے نہ ہی ان کو کوئی متبادل راستہ میسر ہے۔عدالت عالیہ نے سرکاری لاء افسران کو ہدایت کی کہ آئندہ تاریخ سماعت پر وہ اس نکتہ پر عدالت کی معاونت کریں کہ ٹرائل کے حق کے باوجود کس طرح ملزمان کو بغیر ٹرائل پابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین