اگر پاکستان غربت، بھوک ، محرومی ، بے روزگاری اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہم اپنی اصل دولت... یعنی افرادی قوت پر انحصار کریں اور کم منافع بخش زرعی معیشت سے زیادہ منافع بخش علم پر مبنی معیشت (knowledge economy)کی طرف تیزی سے قدم بڑھائیں۔ہماری کل آبادی 1 کروڑ 85 لاکھ ہے جس میں سے تقریباً ایک کروڑ آبادی 20 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ یہی پاکستان کی اصل دولت ہے۔ یہ نادر موقع زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گا کیونکہ ہماری ضعیف العمرآبادی کی شرح اگلے 20 سال میں زیادہ ہو جائے گی لہٰذا اگلے چند سالوں میں تعلیم،سائنس و ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ موجودہ پاکستان کی آبادیا تی امتیازی خصوصیت ایک بہت بڑا بوجھ بن جائے گی۔علم پر مبنی معیشت کا قیام صرف اور صرف دور اندیش جدّت طراز پالیسیوں کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیت صرف اسی وقت ابھر کر سامنے آ سکتی ہیں جب اعلیٰ و معیاری تعلیمی نظام پر سرمایہ کاری کی جائے اور ایسا نظام قائم کیا جائے جس سے تعلیمی عوامل کو سماجی واقتصادی ترقی سے منسلک کیا جاسکے۔علم پر مبنی معیشت کا سب سے اہم حصّہ اسکے اعلیٰ تربیت یافتہ دانشور ہیں۔ہمیں چاہئے کہ دوسرے شعبہ جات کے بجٹ کی کٹوتی کر کے اپنی GDP کا کم از کم 7% حصّہ تعلیم کے لئے مختص کریںاور اعلیٰ معیاری اسکولوں ،کالجوں اور جامعات میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کریں۔ لیکن صرف سرمایہ کاری ہی کافی نہیں ہوگی بلکہ انتظامی نظام جس کے تحت ہمارے اسکول کام کرتے ہیں اس کو بھی یکسر تبدیل کرنا ضروری ہے۔
شعبہ تعلیم کو صوبوں سے واپس لے کر سے مرکزی حکومت کو دے دیا جائے ۔ ثانوی و اعلیٰ ثانوی سطح پر ایک ہی قسم کا قومی نصاب اور ایک ہی قومی امتحان متعارف کرایا جائے۔اسکولوں کالجوں اور جامعات کی سطح کے اساتذہ کی تقرّری کے لئے قومی سطح پر مرکزی انتخابی نظام قائم کرنا چاہئے جس کے تحت بہتر تنخواہوں کے ساتھ یہ یقینی بنایا جائے کہ ذہین نوجوان مرد وخواتین تدریس کو اپنا ذریعہ معاش بنا ئیں۔اعلیٰ تعلیم کو اوّلین ترجیح دی جانی چاہئے ۔ جامعات کو فنڈ کی ادائیگی سنگا پور، ہانگ کانگ، اعلی ٰ بھارتی جامعات میں رائج اور قومی و بین الاقوامی درجہ بندی کی مناسبت سے کرنی چاہئے۔اس کے لئے ہماری جامعات کے بجٹ میں کم از کم 10 گنا اضافہ کرنا ہوگا۔یہ تمام اقدام حسبِ ضرورت مقدار میںاعلیٰ معیاری پیشہ ور افراد کی قومی مفاد کے شعبوں میں تیّاری میں مدد دینگے تاکہ انکی صلاحیتوں کو اعلیٰ تکنیکی اور منافع بخش برآمدات کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جاسکے۔
اسکے علاوہ پاکستان میںاچھے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیتی اسکول قائم کئے جانے چاہئیں۔ منتخب شعبہ جات میں عالمی معیار کے عمدہ تحقیقی مراکز قائم کئے جانے چاہئیں۔ جدّت طرازی کی نشونما کے لئے یہ بھی نہایت ضروری ہوگا کہ ٹیکنالوجی پارک قائم کئے جائیں جو کہ کاروباری لحاظ سے اورٹیکنالوجی محل پرورش(technology incubators) کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیں۔نئی قائم ہونے والی کمپنیوں کے ذریعے جدّت طرازی کو فروغ دینے کے لئے سرمایہ کاری فنڈ(Venture Capital fund) قائم کئے جائیں ۔اہم شعبہ جات جیسا کہ حیاتی ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ کا سامان، الیکٹرانکس ، سامانِ دواسازی اور دیگر اعلیٰ تکنیکی شعبوں کے صنعتی غول (Industrial Clusters) قائم کئے جائیں ۔ گزشتہ دنوں میرا بوسٹن جانا ہوا جہاں ہارورڈ (Harvard) اور ایم آئی ٹی (MIT) جامعات میں لیکچر دینے کا موقع ملا۔ایم آئی ٹی کے ڈگری یافتگان نے 4000 سے زائد نئی کمپنیاں قائم کی ہیں جہاں 11لاکھ ملازمین بر سرِ روزگار ہیں اور ان کی سالانہ زرِ فروخت 240 ارب امریکی ڈالر ہے۔یہ وہ راستہ ہے جو کہ عالمی معیار کے ادارے قائم کرکے ایک ملک اپنا مقدّر بدل سکتا ہے لیکن افسوس اس جاگیرداری نظام میں تعلیم اور تحقیق کو کون پوچھتا ہے ۔ ہمارے اکثر قائدین ترقی کے اس زاوئیے سے ناواقف ہیں۔صد افسوس کہ پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھویں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے لیکن کون پروا کرتا ہے!
حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسا نظام متعارف کرائے جس کے ذریعے نجی شعبے میں بھی تحقیق و ترقی کوفروغ حاصل ہو۔اقوام ترقی صرف اس طرح ہی کر سکتی ہیں جب تحقیق و ترقی پر نجی شعبوں میں بھی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے ۔ اگرہم کوریا ، چین، جاپان ، امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک جنھوں نے ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کی ہیں ان پر نگاہ ڈ الیں تو نجی شعبوں میں بڑے پیمانے پر تحقیق و ترقی کا رجحان ایک اہم قدر ہے جو مشترک نظر آتی ہے ۔اسی کی بدولت کینیڈا ،کوریا، چین، جاپان اور یورپی ممالک نئی مصنوعات ایجاد کرنے کے قابل ہو گئے ہیں ، پہلے سے موجود مصنوعات کے معیار میں بہتری کررہے ہیں اور منافع بخش سامان کی برآمدات میںاضافہ کر رہے ہیں۔یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر نجی شعبوں میں تحقیق و ترقی کاحصّہ حکومتی سطح کی تحقیق و ترقی کی نسبت بہت تیزی سے بڑھ رہاہے ۔بالخصوص تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ممالک میں جیسے کوریا، سنگاپور اور تائیوان ہیں۔دنیا کی کل تحقیق و ترقی کی لاگت کا تخمینہ 1.4 کھرب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے جس میں63% حصّہ نجی کمپنیوں اور کاروبار سے ہے، اور صرف 37% حصّہ حکومتوں سے حاصل ہوتاہے ۔
تحقیق و ترقی کی کل لاگت کا تقریباً 70% حصّہ چین میں ، 75% حصّہ کوریا اور جاپان میں ، 70% حصّہ جرمنی میں اور 68% حصّہ امریکہ میں نجی شعبہ تحقیق و ترقی سے حاصل ہوتا ہے ۔ جبکہ اسکے برعکس پاکستان اور دیگر OIC رکن ممالک میں نجی شعبے کا تحقیق و ترقی میں حصّہ 5% 1%- سے بھی بہت کم ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان اوراسلامی کانفرنس تنطیم (OIC) کے دیگر رکن ممالک میں سائنسی تربیت یافتہ افرادی قوت کی عدم دستیابی بھی ترقی کی راہوں کی اہم ر کاوٹ ہے۔فن لینڈ میں فی لاکھ آبادی پراوسطاً 10,563 ، ناروے یں 9,222 ،ڈنمارک میں 8,846 اور یورپی ممالک میں اوسطاً 4,481 انجینئیر اور سائنسدان ہیں۔جبکہ اسلام کانفرنس تنظیم (OIC)کے رکن ممالک میں 451 اور پاکستان میں فی لاکھ آبادی پر صرف 300 انجینئر اور سائنسدان موجود ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری قیادت کی فرسودہ پالیسیوں نے ہمیں کس قدر پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ہم مغرب کے غلام بن کے رہ گئے ہیں۔ نجی شعبہ تحقیق و ترقی (R & D) کے فروغ کے لئے ٹیکس مراعات کی پیشکش، افرادی قوت کی تربیت اور جدّت طرازی کے لئے عطیات کا فروغ، اعلیٰ تکنیکی صنعت کے قیام کے لئے سر مایہ کاری کو فروغ یا بالواسطہ اداروں کا قیام مثلاً ٹیکنالوجی پارکس اور ٹیکنالوجی پرورش گاہوں (incubators) کا قیام بہت ضروری ہے۔ مجدّد کے حقوق (Intellectual Property Rights)محفوظ کرنے کا قانونی مسوّدہ (مثلاً امریکی Bayh-Dole قانون) بھی موجود نہیں ہے۔
کچھ اہم صنعتوں کے قیام کے لئے بھی توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے مثلاً کوریا ،جاپان، سنگاپور اور تائیوان نے کچھ منتخب صنعتیں مثلاً گاڑی سازی، انجینئرنگ کاسامان، بحری جہازوں کی تعمیر، الیکٹرانکس اور کمپیوٹر بنانے کی صنعتوں پرخاص توجّہ مرکوز کی ۔ان صنعتوں کی ترقی کے لئے مراعات دی گئیں،ان کمپنیوںکی انجینئرنگ اور خاکہ سازی میں ان کی مدد کی گئی نیم سرکاری بالواسطہ ادارے مثلاً ٹیکنالوجی پارکوں، صنعتی پارکوں اور مخضن مراکز (incubation centers) قائم کئے گئے ۔مزید نئی ٹیکنالوجیز کو بیرونِ ممالک سے تبادلے کو فرغ دینے کے لئے بیرونِ ملک مقیم ہم وطنوں سے تعلقات قائم کئے گئے اور اپنے ممالک نقل مکانی میں سہولتیں فراہم کیں۔
مضبوط و مستحکم جدّت طراز پالیسیوں کی منظوری اور نفاذ اس لئے ضروری ہے کہ مسابقتی صنعتی ترقی اور برآمدات کو فروغ حاصل ہو سکے۔ جو علم و دانش تحقیقی اداروں اور جامعات سے حاصل کی جارہی ہے اسے صنعتی اور تجارتی بنیادوں پر لانا ضروری ہے، اسکو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک منظم نظام کی ضرورت ہے۔ چین، بھارت او ر کچھ مشرقی ایشیائی ممالک میں علمی سطح میں اضافے کی وجہ سے جدّت طرازی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے لئے نجی کمپنیوں کو مشّاق اور ہنر مند انجینئر اور محقّقین رکھنے کے لئے مراعات دی جارہی ہیں،اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کے قیام کے لئے ٹیکس کی چھوٹ، کمپنیوں کے باہمی اشتراک کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ اقتصادی سطح پر عا لمی پیداواری نیٹ ورک سے ہم آہنگی قائم ہو سکے۔ جدّت طرازی کے فروغ کے لئے اٹھائے گئے اقدام کا ایک مضبوط بنیادی ڈھانچہ تیّار کیا جانا چاہئے جو کہ مکمل طور پرقانونی لحاظ سے محفوظ ہو۔اور ایسے قوانین وضع کئے جائیں جو کہ معیاری مصنوعات کو فروغ دیں اور غیر معیاری مصنوعات کی پیداوار کو روکنے لئے فوری فیصلہ کرنے والی تجارتی عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ ایسی فیکٹریاں بند کی جا سکیں ۔
یہی وقت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگیں اور تعلیم ،سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کریں۔کاش کہ موجودہ حکمران اس اہم ترقیاتی معاملے پر عمل پیرا ہوں تاکہ پاکستان میں ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت قائم ہو سکے۔